الوقت – ایک سوال جو ہمیشہ پوچھا جاتا ہے کہ کیوں امریکا، ڈکٹیٹر حکومتوں کی حمایت کے وقت جمہوریت کے اپنے نعرے پر زیادہ توجہ کیوں نہیں دیتا۔
مثال کے طور پر جب یمن پر سعودی عرب کے حملے شروع ہوئے شاید شروعات میں امریکا نے اس کی ہلکی مخالفت کی تھی لیکن بعد میں علاقے کے تمام مسائل میں سعودی عرب کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اس نے جنگ کی حمایت کی اور سعودی عرب کی اسلحہ جاتی، خفیہ اور سیکورٹی حمایت کرکے ریاض سے اپنی حمایت کا اعلان کیا ۔ در حقیقت امریکا نے علاقے کی ایک حکومت کی سرنگونی کو وہ بھی نامعلوم منطق و استدلال سے تیز کر دیا۔ اس کے علاوہ امریکا کی خارجہ پالیسی کے مرکز جس میں تھنک ٹینک، یونیورسٹیاں، کالجز اور تحقیقاتی مرکز شامل ہیں، سب ہی اس موضوع پر خاموش رہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی حکومت اور اس کے تھنک ٹینک، ان اقدامات پر جو ان کے نعروں کے برعکس ہیں، خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟
گرچہ خلیج فارس کے علاقے کے ممالک کے مسائل اور ان کی لین دین سے غافل نہیں ہونا چاہئے جس نے مشرق وسطی میں امریکا کے اثر و رسوخ کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن ان سب کے ساتھ ایک اہم چيز کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور وہ ہے پیسا۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ علاقے کے مالدار ممالک امریکی تھنک ٹینکوں میں بے پناہ پیسے لگاتے ہیں۔ در ایں اثنا امریکا میں لابی تشکیل دینے میں قطر کی فضول خرچی کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس ملک نے ایک کروڑ 40 لاکھ ڈالر بروکینگز ادارے کو دیا تاکہ اس ملک کے دارالحکومت میں اس کا کوئی ادارہ ہو، ایسا ادارہ جو دنیا کے سب سے مشہور تھنک ٹینکوں میں سے ایک ہو۔
سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک نے دیکھا کہ قطر، واشنگٹن میں کتنا زیادہ پیسا خرچ کر رہا ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر ان کو قطر کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے تو انھیں ان کے اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ سعودی عرب، امارات، کویت اور بحرین نے اپنی خصوصی لابی کا استعمال کیا اور انھوں نے امریکی تھنک ٹینکوں اور واشنگٹن کے اداروں میں پیسے بھرنا شروع کر دیئے۔ در حقیقیت سعودی عرب اور امارات نے اس وقت سے جب قطر سے ان کےتعلقات اچھے نہیں تھے، بہت زیادہ پیسے خرچ کئے اور انھوں نے تھنک ٹینکوں اور دیگر جگہوں پر جو پیسے خرچ کئے تھے اس کے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔
لابی گری کے ادارے بہت ہی فائدے مند تجارت ہے جو اپنے مشتری سے ممکنہ طور پر بہت زیادہ سود حاصل کرتا ہے۔ شاید تھنک ٹینک کے لئے 200 ڈالر بہت زیادہ ہو لیکن لابی تشکیل دینے کے لئے سعودی عرب جیسے تیل سے مالا مال ملک کے لئے کوئی زیادہ نہیں ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کم خرچ، زیادہ فائدہ۔
در حقیقت اس مسئلے کے ساتھ بحران مالی بھی تھا جو کچھ سال پہلے ہی شروع ہوا تھا اور جس نے یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینک کو کوریج دی، ٹھیک اسی وقت جب بری طرح سے بجٹ کم کئے گئے۔ سرکاری امداد اور ان کے داخلی حامی بھی کم ہو گئے اور ان تنظیموں اور اداروں کو بہت زیادہ مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا کہ سعودی عرب کا پیسا آ پہنچا۔ 2014 میں خلیج فار کا پیسا پوری طرح آشکار ہو گیا اور عالمی تحقیقات اور اسٹراٹیجک ادارے نے امارات کے دس لاکھ ڈالر کی مدد سے ایک بڑا اور نیا دفتر کھول لیا۔
نیویارک ٹائم نے اس سال تھنک ٹینک کو ملنے والی غیر ملکی امداد کا جائزہ لیا۔ اس تحقیقات سے لاکھوں ڈالر کا انکشاف ہوا جو اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے واشنگٹن روانہ کئے گئے تھے۔ یہی سبب ہے امریکا اور اس سے وابستہ ادارے جو کبھی کبھی مشرق وسطی کی کچھ حکومتوں پر شدید دباؤ ڈالتے ہیں، خلیج فارس کے اتحادیوں کے اقدامات کے مقابلے میں جیسے جمہوریت سے سعودی عرب کی مخالفت، داخلی تحریکوں کی سرکوبی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی وغیرہ جیسے کچھ مسائل جو شائستہ ہیں، ان پر بـحث کی جاتی ہے اور باقی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔