الوقت-پورے ملک میں انتخابات کے نتائج کے غیر سرکاری اعلان کے بعد ایران کی دسویں پارلیمنٹ کی صورت حال واضح ہو چکی ہے اور منتخب اراکین کے رجحانات پر غور کرنے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس بار پارلیمنٹ میں کون سے رجحانات رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے تاہم اب تک اعلان شدہ نتائج کے مطابق اگلی پارلیمنٹ کی شکل ایسی ہوگی جسے ہم خود مختار اور متوازن پارلیمنٹ کہتے ہيں۔ ایران کے موجودہ اسپیکر ڈاکٹر علی لاریجانی نے اس سلسلے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی میرے پاس پارلیمنٹ میں نومنتخب اراکین کے بارے میں تفصیلات نہیں ہیں لیکن میرے خیال میں سماج میں کافی بالغ نظری ہے اور ملکی امور کی مختلف لوگوں پر ذمہ داری، ملک کے لئے بہت اچھی بات ہے۔ ایران میں جمعے کے روز ہونے والے پارلیمانی اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔اس بار پارلیمانی انتخابات کے لئے بارہ ہزار سڑسٹھ لوگوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے لیکن آخر میں، چار ہزار آٹھ سو چوالیس امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کے خاتمے اور قانونی مراحل طے کئے جانے کے بعد، ملکی ذرائع ابلاغ سے نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ بہرحال ایران میں انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا کہ ایرانی عوام، کس قدر اسلامی انقلاب اور اس کے اہداف سے وابستہ ہیں اور چونکہ یہ وابستگی، شعور و آگہی کا نتیجہ ہے۔ اس لئے دشمنوں کی تشہیراتی مہم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے کئے جانے والے پروپگنڈوں سے وہ متاثر نہيں ہوتے ہیں۔ ایرانی عوام نے حالیہ پارلیمانی اور ماہرین اسمبلی کے انتخابات میں ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی قوم اگر متحد ہوتی ہے تو اسے دشمنوں کی سازشوں سے نقصان نہیں ہوتا۔
حالانکہ عوام کو ملک کی معیشت کی جانب سے اطمینان نہيں تھا اور امریکہ کی وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ایٹمی معاہدے کی جانب سے بھی تشویش لاحق تھی اور اس کے فائدے بھی ابھی ظاہر نہيں ہوئے تھے لیکن ان سب کے باوجود، عوام نے رھبر انقلاب اسلامی کی صدا پر لبیک کہا اور بڑی وسیع سطح پر انتخابات میں شرکت کی اور دینی جمہوریت کی خوبصورت شبیہ پیش کی۔اس لئے اس دن کو قومی عید کے طور پر منایا جانا چاہئے۔ ایرانی عوام نے، عوامی انتخابات اور دینی جمہوریت کا پوری دنیا کے سامنے ایک انتہائي خوبصورت نمونہ پیش کیا۔ آج کے اس دور میں، اسلامی جمہوریت کی تشہیر کا اس سے بہتر کیا طریقہ ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیتنے والے کو جیت کے اور ہارنے والے کو ہار کے آداب پر توجہ دینی چاہئے۔ ملک کی ترقی کے لئے اجتماعی عزم کی ضرورت ہوتی ہے اور نومنتخب پارلیمانی اراکین ملک کی تعمیر و ترقی کا عزم کرکے جماعتی اور نظریاتی دائروں سے باہر نکل کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ذریعے ملک و قوم کی اس طرح سے خدمت کر سکتے ہيں جیسا کہ حق ہے اور جو ان کی اصل ذمہ داری بھی ہے اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینی طور پر رھبر انقلاب اسلامی اور عوام کے سامنے سرخرو ہوں گے۔/