الوقت- لی یونگ گوک شمالی کوریا کے سابق رہنما کے ذاتی محافظ تھے۔ انہوں نے دویچہ ویلہ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کیم جونگ ایل کی خدمت گذاری کی تفصیلات بتائي ہیں۔ لی یونگ گوک ان دنوں انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ہیں لیکن کئي برسوں قبل وہ شمالی کوریا کے سابق سربراہ کی سکیوریٹی کے ایک اہم عھدے پر تھے۔ وہ شمالی کوریا کے سابق لیڈر کی خصوصی ٹیم میں ایک رکن تھے۔
لی یونگ کہتے ہیں کہ وہ ابھی اسکول میں تھے کہ انہیں کیم جونگ ایل کی سکیورٹی ٹیم میں داخل کردیا گیا کیم ابھی شمالی کوریا کے سربراہ نہیں بنےتھے اور ان کے باپ انہیں اپنی جانشینی کے لئے آمادہ کررہے تھے۔
ان کا کہنا ہےکہ کچھ لوگ شمالی کوریا کے لیڈر کی طرف سے اسکولوں کے چکر کاٹ رہے تھے تا کہ مناسب جسم و جسمانیت کے لحاظ سے مناسب جوانون کو ڈھونڈ کر اس ٹیم میں شامل کیا جاسکے۔ ان سے سکیورٹی کارندوں نے آئيڈیالوجیکل اور ورزشی امتحان لیا۔ سب سے اہم خصوصیت پاکیزہ خاندان یعنی حکومت کا وفادار ہونا تھا۔ اگر ان کا کوئي دور کا رشتہ دار بھی جنوبی کوریا میں ہوتا یا کوئي بھی حکومت کا مخالف ہوتا ایسے فرد کو سیکورٹی ٹیم سے فوری نکال دیا جاتا تھا۔
ایک سال کا عرصہ لگا جس میں لی یونگ تمام امتحانوں اور آزمائيشوں میں کامیاب ہوئے اور اس کے بعد انہیں شمالی کوریا کے آنے والے رہبر کی سیکورٹی ٹیم میں شامل کرلیا گيا۔
کیم جونگ ایل کے باڈی گاڑد کا کہنا ہےکہ شمالی کوریاکے سابق سربراہ کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ بہت زیادہ گالیاں دیتے تھے اور بے حد رکیک الفاظ سے استفادہ کرتے تھے۔ لی یونگ کہتے ہیں کہ کیم جونگ ایل ہر گز اس طرح سے نہیں تھے جیسا کہ وہ سوچتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ وحشی، شدت پسند اور نہایت بے رحم تھے۔ اگر کوئي ان کے پس پشت کچھ کہنے یا ہنسے کی جرات کرتا تو ناگہاں ناپیدا ہوجاتا اور ہم اسے دوباہ ہرگز نہ دیکھ پاتے۔
کیو جونگ ایل کے باڈی گارڈ کا کہنا ہے کہ بعض اوقات شمالی کوریا کے سابق سربراہ کے قریبی ترین افراد بھی ان کے قہر کا شکارہوجاتے اور ان کا کوئي پتہ نہ چلتا۔
لی یونگ کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے سابق سربراہ ہرگز مستقل مزاج نہیں تھے بلکہ دمدمی مزاج تھے، اس کے باوجود اپنے محافظوں سے اچھے تعلقات رکھتے تھے اور بارہا ان کے ساتھ ہنستے تھے گفتگو کرتے تھے، سارے محافظ ان سے بہت ہی ڈرتے تھے کیونکہ جانتے تھے کہ ان کا موڈ کسی بھی پل بدل سکتا ہے اور وہ غصے میں آکر انہیں گآلیاں دینے لگیں گے۔
تمام سختیوں اور پریشانیوں کےباوجود لی یونگ نے دس برسوں تک کیم جونگ ایل کے لئے کام کیا اور ان کے باڈی گارڈ کی خدمات انجام دیں۔ انیس سو اٹھاسی میں انہیں مجبورا اپنا کام بدلنا پڑا، ہوا یہ کہ ان کا چچا زاد بھائي کیم جونگ ایل کا خاص ڈرائیور بن گیا۔ اسی بنا پر الی یونگ کو اپنا کام تبدیل کرنا پڑا کیونکہ شمالی کوریا کے قوانین کے مطابق ایک خاندان کے دو فرد سربراہ کے خاندان کی خدمت گذاری میں نہیں رہ سکتے۔
لی یونگ کہتے ہیں وہ دس سال سے زیادہ عرصے میں پہلی بار پیونگ یانگ اور کیم جونگ ایل کے الگ تھلگ محلوں کے ماحول سے باہر نکلے تھے اور شمالی کوریا کے حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ناگہاں میں نے دیکھا کہ دس برسوں میں کوئي چيز نہیں بدلی ہے، عوام اتنا ہی غربت اور افلاس کے شکار ہیں جتنا کہ سرکاری میڈیا کیم جون ایل اور ان کے گھرانے کے بارے میں قصیدہ سرائي کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں شدید صدمہ پہنچا تھا کیونکہ ان کے ملک کامیڈیا جھوٹ بولتا ہے کہ اور ان کا سربراہ قحط زدہ عوام کے ساتھ روتا ہے اور کچھ نہیں کھاتا ہے۔ لی یونگ کوک بدستور سرکاری ادارے میں کام کررہا تھا اور اسے حکمران طقبے اور حکومت سے نزدیک افراد کا درجہ حاصل تھا۔ انہیں انیس سو چورانوے میں ایک مشن پر چین بھیجا گيا اور انہوں نے چین میں یہ فیصلہ کیا کہ وہ جنوبی کوریا جائيں گے، البتہ جو شخص انہيں جنوبی کوریا لے جانے والا تھا دھوکہ باز نکلا اور اور انہیں فورا شمالی کوریا روانہ کرکے لیبر کیمپ بھیج دیا گيا۔ انہیں یودوک کیمپ بھیج دیا گيا۔ یہ کیمپ شمالی کوریا کے لیبر کیمپوں میں سب سے زیادہ بدنام زمانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قیدیوں کےساتھ جانوروں جیسا برتاؤ کیا جاتاتھا بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ برا برتاو کیا جاتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر پندرہ دن میں ایک بار کچھ قیدیوں کو موت کی سزآ دی جاتی تھی اور ہمیں مجبورکیا جاتا تھا کہ یہ منظر قریب سے دیکھیں، ہمیں دس میٹر کے فاصلے سے یہ منظر دکھا یا جاتا تھا۔
لی یونگ کوک لیبر کیمپ سے فرار کرنے میں کامیاب ہوگئے، انہوں نے اپنے فرار کی داستان نہیں سنائي بلکہ صرف اتنا کہا کہ اگرچہ ان کے ہتھکڑی لگي تھی لیکن وہ چین کی سرحد تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور چین چلے گئے۔
شمالی کوریا کے سابق سربراہ کا یہ سابق محافظ سنہ دوہزآر سے سئول میں زںدگي گذار رہا ہے اور شمالی کوریا میں انسانی حقوق کی پامالی اور اس ملک کے حکام کے جرائم کے بارے میں تقریریں اور انٹرویو کرتا ہے۔ وہ کہتا ہےکہ اسے آج بھی شمالی کوریا کے سکیورٹی کارندوں سے ڈر لگتا ہے اور اس خوف کے سائے تلے زندگي گذار رہا ہے کہ شمالی کوریا کے کارندے اس کا پیچھا کررہے ہیں لیکن وہ اپنے اس خوف کو غالب آنے نہیں دیتا بلکہ اس کا مقابلہ کررہا ہے۔ ان مسائل کے باوجود وہ شمالی کوریا میں آپنے گھرانے کے بارے میں ایک لفظ بھی کہنے کو تیار نہیں ہے۔