الوقت-پاکستان کے سیکورٹی حلقوں اور خفیہ اداروں نے کھل کر اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ داعش سے وابستہ دہشت گردوں کا وجود پاکستان کے لئے ایک خطرہ بنتا جار رہا ہے۔ پاکستان کے خفیہ تحقیقاتی ادارے آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان نے سینیٹ کی داخلہ امور کی کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی بعض تنظیمیں اور مسلح گروہ دہشت گرد گروہوں منجملہ داعش، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اگرچہ حکومت پاکستان اب تک اس بات سے انکار کر رہی تھی کہ ملک میں د اعش کا کوئی اثر ہے لیکن آئی بی کے سربراہ آفتاب سلطان نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ آئی بی نے پاکستان کے اندر داعش کے ایک بڑے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا۔ درایں اثنا ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ نے پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ کراچی میں دہشتگردی کے واقعات میں 2 بڑے گروہ ’القاعدہ برصغیر‘اور ’کالعدم لشکر جھنگوی‘ شامل ہیں جنہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی معاونت حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران القاعدہ برصغیر کے نائب امیر سمیت 97 خطرناک دہشت گردوں کو پکڑا گیا جن میں 3 انتہائی مطلوب ٹارگٹ کلرز بھی شامل ہیں۔ ان میں سے 26 کے سر کی قیمت مقرر تھی اور یہ تمام دہشت گرد ریاست کو انتہائی مطلوب تھے۔ القاعدہ کی مالی معاونت کرنے والے 12 ملزمان کو بھی گرفتار کیا گیا ہے گرفتار دہشت گردوں میں دھماکا خیز مواد کے ماہر کالعدم لشکر جھنگوی کے 15 کارندے اور 6 خود کش بمبار بھی شامل ہیں۔ ان دہشتگردوں نے حیدرآباد جیل بھی توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا جسے ناکام بنا دیا گیا۔ دہشتگردوں نے لطیف آباد کے علاقے میں کرائے پرگھرلے کر کراچی سے کارگو کے ذریعے واشنگ مشینیں حیدرآباد بھجوائی جاتی رہی رہیں جن کی موٹریں نکال کر اندر دھماکا خیز مواد اور پولیس سے چھینا گیا اسلحہ ہوتا تھا۔ دہشت گردوں نے مکان میں ڈرم، بارود، بال بیئرنگ، ڈیٹونیٹر اور تاروں کا ڈھیرجمع کر رکھا تھا جبکہ پولیس سے چھینا گیا اسلحہ بھی گھر میں موجود تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے عوام سے اپیل کی کہ اطراف میں نظر رکھیں اور کسی انجان پر بھروسہ نہ کریں تا کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہو سکیں۔ اس درمیان جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان ميں داعش کو وجود بخشنے اور ان کو فعال بنانے میں پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کے اہلکار کس حد تک ملوث ہیں، یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جس کی جانب آئي بی کے سربراہ آفتاب سلطان نے اشارہ کیا ہے، اس وقت پاکستان کو اندرون ملک اوراس کے ساتھ ہی علاقائي اور عالمی سطح پر تعلقات میں جس بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔ اس لئے کہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ الزام عاید کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت اسلام آباد بعض شدد پسند گروہوں کی حمایت اور مدد کر رہی ہے کہ جن کے سرکش عناصر ملک اور بیرون ملک پاکستان کے لئے آئے دن مشکلات کھڑی کرتے رہتے ہيں۔ چنانچہ افغانستان میں بعض حلقے کھل کر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد گروہ داعش دراصل طالبان اور دیگر گروہوں سےعلیحدگي اختیار کرنے والے افراد کا مجموعہ ہے کہ جسے افغانستان کے صوبہ ننگرہار پر قبضے کے مقصد سے تشکیل دیا گيا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس گروہ ميں شامل دہشت گرد عناصر دراصل ننگر ہار پر قبضہ کرکے اسے اپناایک اڈہ بنانا چاہتے ہیں یہ ایک ایسا موضوع جو افغانستان کے لئے بھی ایک سنجیدہ خطرہ بنا ہوا ہے۔ یہ کہنا کہ پاکستان کے بعض حلقوں کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی جارہی ہے، یہ بات کس حد تک درست ہے؟ اس سے قطع نظر، ایک بات مسلمہ ہے وہ یہ کہ ان گروہوں نے پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالدیا ہے۔