~~الوقت۔ قدس انتفاضہ کو شروع ہوئے تین ماہ بیت گئے، صہیونیوں کے ہاتھوں ۱۴۴ افراد شہید اور ھزاروں کی تعداد میں زخمی یا گرفتار ہونے کے باوجود فلسطینی اتھارٹی اور حتٰی فلسطینی مسلح گروہوں کی جانب سے اس انتفاضہ کی حمایت اور مدد کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، ما سوائے اس کے کہ صرف اپنے بیانات اور گفتگومیں اس قیام کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے۔ لیکن عملی طور پر معاملہ اس ظاہری حمایت کے برخلاف نظر آ رہا ہے، مثال کے طور پر فلسطینی اتھارٹی کی محافظ فورسز نے متعدد بار مغربی کنارے پر ہونے والے فلسطینی مظاہروں کو روکنے کی کوشش کی، اور ان کے راستے میں روکاوٹیں کھڑی کی، تاکہ وہ صیہونیوں کے رہائشی علاقوں تک نہ جا سکیں۔ یہ اقدامات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کا صیہونی فوج، اسرائیلی سکیورٹی اداروں اور انکی انٹیلی جنس کے ساتھ رابطہ موجود ہے۔ البتہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اس طرح کے اقدامات پر کوئی حیرانگی نہیں، کیونکہ ایک طرف تواس تنظیم نے خود کو اوسلو معاہدے کے تحت اسکی شقوں پر لازمی طور پرعمل کرنے کا پابند کیا ہوا ہے، دوسری جانب بنیادی طور پر یہ تنظیم سازگار طبیعت رکھتی ہے، اور اس سے صیہونیوں کے مدمقابل مقاومت کی توقع نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ یہ اُن فلسطینی جوانوں کی حمایت کرے جو اپنے لوٹے گئے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگر فلسطین اتھارٹی میں ایسے افراد موجود بھی ہوں جو فلسطینیوں کے حالیہ انتفاضہ کی حمایت میں اقدام اٹھائیں تو یہ تنظیم ایسے افراد کو سخت سزا دیتی ہے، بالکل ایسے ہی جیسے "محمد ماہر حامد" کے ساتھ کیا گیا۔ یہ جوان فلسطین اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز میں تھا، ایک اسرائیلی اخبار "معاریو" کے مطابق اس نے رام اللہ کے نزدیک اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کی تھی۔ اس حادثہ کے بعد اسرائیلی فوج اور فلسطین اتھارٹی کے باہمی صلاح مشورے سے اسے گرفتار کیا گیا، اور اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کے الزام میں اسے ۱۰ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
فلسطین اتھارٹی اور صیہونی رژیم میں رابطہ موجود ہے، اور موجودہ صورتحال میں اس رابطے کے مضمرات کا سامنا فلسطین کوبھی کرنا پڑا۔ یہاں چند نکات کا ذکر کرنا لازمی ہے۔ اول یہ کہ فلسطین اتھارِٹی اور صیہونی رژیم کے درمیان بظاہرخفیہ مذاکرات نے فلسطینیوں کی مشکلات اور مصائب میں اضافہ کیا ہے۔ فلسطین اتھارٹی کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس طرح کے مذاکرات سے صرف صیہونیوں کی مراعات میں اضافہ ہو گا، اسکے علاوہ اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا، انکا یہ اقدام اس بات کا باعث بنا کہ فلسطینی عوام کے حقوق اور امنگوں کو نظرانداز کیا جائے۔ جیسا کہ سب پر واضح ہے صیہونی رژیم کسی شرط پر بھی نہیں چاہتی کہ فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور خاص طور پر یہ کہ فلسطینی حکومت قائم ہو، دوسری جانب بظاہر فلسطین اتھارٹی بھی اس بات کا دعوی کرتی نظر آتی ہے کہ وہ فلسطینی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہے۔ اس صورتحال میں خطے کے موجودہ حالات کا فائدہ صہیونیوں کو ہو رہا ہے۔ دوسرا قابل توجہ موضوع فلسطین اتھارٹی کی جانب سے فلسطینی عوام کے حقوق اور ان کے مطالبات پر بے توجھی کا مظاہرہ ہے۔ اور اسی دلیل کی بنا پراس تنظیم کے مذاکرات کی فلسطینی عوام کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں۔ ایک اور اہم نکتہ یہ کہ فلسطین اتھارٹی کا فلسطینی عوام کے حقوق کو نظرانداز کرنا اس بات کا باعث بنا کہ اس تنظیم کے رہنماعوام کی نظروں میں اپنا اعتبار اور مقام کھو بیٹھیں، اور انکے ان بیانات کے باوجود کہ "وہ مغربی اورعرب ممالک میں اسرائیلی حکام کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں"، عوام کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آ رہا کیونکہ عوام کا اعتماد ان رہنماوں سے اٹھ چکا ہے۔ جو نکات بیان کئے گئے ان کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ فلسطین اتھارٹی اور صیہونی رژیم میں خفیہ مذاکرات اور امن قائم کرنے کے بہانے فلسطینی مجاہدین کیخلاف جارحانہ اقدامات اورانتفاضہ کی سرکوبی کے لئے کوششیں، اورفلسطین اتھارٹی کے ساتھ ساتھ دوسرے فلسطینی گروہوں کا رویہ اور ان کی حمایت کا نہ ہونا، باعث بنا کہ قدس کا حالیہ انتفاضہ تنہا رہ جائے، اور اس طرح اس انتفاضہ کے کسی نتیجہ تک نہ پہچنے کا احتمال پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔