الوقت-یہ عصرِ حجر نہیں بلکہ اکیسویں صدی کا پیشرفتہ اور ترقی یافتہ دور ہے، ایک ایسا دور جہاں کسی کے پاس دوسروں کے لیے کوئی وقت نہیں، آپس میں تمام قرابتی رشتے ٹوٹ چکے ہیں، گھر بیٹھ کر فیس بک اور واٹس ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعہ خوشیوں پر مبارکباد اور غموں پر تعزیتی پیغامات بھیج دیے جاتے ہیں، ہر کوئی اپنے اپنے مشغلوں میں محو ہے، کوئی عیش و نوش کے نشے میں مست ہے تو کوئی کمانے کی چکر میں ہے۔
لیکن ایسے ہماہمی اور نفسا نفسی کے پرآشوب دور میں بھی ایسے عاشق اور جیالے موجود ہیں جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر امام وقت (عج) کو پرسہ دینے کے لیے پیدل، پابرہنہ سوئے کربلا رواں دواں ہیں۔ ان جیالوں کی تعداد ہزاروں یا لاکھوں میں نہیں، بلکہ کروڑں میں ہے۔ انہیں داعش، طالبان اور دیگر تکفیروں گروہوں کی دھمکیوں کا بھی علم ہے اور راستے کی مشکلات اور سختیوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی بھی چیز ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں ، انکے دل عشق حسین (ع) سے لبریز اور آنکھیں غمِ حسین (ع) میں پُرنم ہیں، یہ امام وقت (عج) سے کئے ہوئے عہد کو نبھانے اور دل میں "لیتنا کنا معکم" کی آروز لے کر سیدالشہداء ابی عبداللہ الحسین (ع) کے استغاثے پر لبیک کہتے ہوئے سوئے کربلا قدم بڑھا رہے ہیں۔
اگرچہ پیدل چل چل کر انکے پاؤں زخمی ہو چکے ہیں، پاؤں سے خون بہہ رہا ہے، تلووں پر چھالے پڑ گئے ہیں، تھکاوٹ سے جسم چور چور ہے، لیکن انہیں اپنی جان کی کوئی فکر نہیں بس انہیں وہ منظر رلا رہا ہے جب اہل حرم کا قافلہ در بہ در پھرانے کے بعد اربعین کو واپس کربلا پہنچا تھا تو ایک کہرام برپا ہو گیا تھا۔
ان راہیانِ کربلا میں کچھ ایسے عاشق بھی موجود ہیں جو جسمانی طور پر تو معذور ہیں لیکن عشق حسین(ع) انہیں گھٹنوں کے بل چل کر کربلا پہنچنے پر مجبور کررہاہے، ایک آگ ہے جو سینوں میں لگی ہے، ایک شعلہ ہے جس نے عقل و شعور کے سارے خرمن جلا دیے ہیں،اک حرارت ہے جو ٹھندی نہیں ہورہی ،اے حسینؑ ! اے آقا! اے مولا! آپ نے ایسا کیا کردیا کہ دنیا آپ کی طرف کچھی چلی آرہی ہے۔آپ نے ایسا کونسا چراغ جلا دیا کہ لوگ پروانوں کی طرح آپ کے حرم کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں،بوڑھے ،بچے،ضعیف،جوان،مرد ،عورتیں،بچے سب تمام تر خطرات کی پرواہ کئے بغیر آپ کے مزار کی جانب رواں دواں ہیں۔
مولا! آپ نے ایسا کیا معجزہ دکھایا کہ ہر جگہ ،نگر نگر ، گلی گلی، قریہ قریہ میں لبیک یا حسین (ع)، لبیک یا حسین (ع) کی صدائیں گونج رہی ہیں۔
مولا! اس راہ میں ماضی میں بھی عاشقانِ کربلا کے سر قلم کئے گئے، ان کے سروں سے دیواریں بنا ئی گئیں، انہیں آگ میں زندہ جلایا گیا اور آج بھی سعودی،وہابی،سلفی اور تکفیری دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن آپ کے چاہنے والے ان ساری دھمکیوں سے بے نیاز آپ کی تربتِ مبارک کی طرف بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔
اس عشق کی حقیقت کو سمجھنا عام انسان کی سمجھ سے کہیں بالاتر ہے، اس کے لیے دل میں معرفت حسین (ع) اور سینے میں جزبہ حسینی چاہیے، امام حسین (ع) نے اپنے پاکیزہ لہو سے رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے ہدایت کا دیا روشن کردیا ہے، اب جس کا جی چاہے ہدایت پائے اور جس کا جی چاہے در در ٹھوکریں کھاتا رہے۔
اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی