الوقت- چین نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہےانتالیا سے شین ہوا کی رپورٹ کے مطابق چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے پیرس حملوں کے تناظر میں عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک عالمی اتحاد تشکیل دیا جائے
چینی وزیر خارجہ نے گروپ بیس کے وزرا خارجہ کے ساتھ ورکنگ ڈنر میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ اس بات کا قائل ہے کہ دہشتگردی کے خلاف تمام ممالک پر مشتمل ایک فورس تشکیل دی جائے اور اس مسئلے کی وجوہات اور علل و اسبات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے ۔
ان کا کہنا تھا چین خود دہشتگردی کا شکار ہے اور اقوام متحدہ کو دہشتگردی کے خلاف مقابلے کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔
ادھرترکی کے شہر انتالیہ میں گروپ بیس کے اجلاس کے موقع پر برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ ملاقات کے دوران روسی صدر نے ماسکو اور لندن کے درمیان تعاون بڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ روس اور برطانیہ کے تعلقات اپنی بہترین شکل میں نہیں ہیں لیکن دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ پیرس میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے صدر ولادی میر پوتن نے کہا کہ ان حملوں سے ، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت اجاگر ہوئی ہے۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ روس کے صدر نے انتالیہ میں اپنے امریکی ہم منصب باراک اوباما سے بھی ملاقات اور گفتگو کی ہے۔ ملاقات میں شام اور یوکرین کی صورتحال اور پیرس میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے پہلے اتوار کے روز روسی صدر نے انتالیہ میں جرمن چانسلر انجلا مرکل سے بھی ملاقات کی تھی۔ جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سیکورٹی معاملات پر بات چیت سرفہرست رہی
توقع بھی یہی کی جا رہی تھی کہ پیرس کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بہت سے ممالک بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو روکنے اور اس کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کی غرض سے سیکورٹی اقدامات میں اضافے کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کریں گے۔
اسی سلسلے میں چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے پندرہ نومبر کو عالمی برادری سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے کی اپیل کی۔ چینی وزیر خارجہ کی اس درخواست کے ساتھ ہی جنوبی کوریا، ملیشیا، جاپان، آسٹریلیا اور سنگاپور جیسے بہت سے ایشیائی ممالک نے دہشت گردی اور قانون شکن افراد کا مقابلہ کرنے کے لیے حفاظتی انتظامات سخت کر دیے ہیں۔
درحقیقت پیرس کے دہشت گردانہ واقعات سے عالمی برادری کو جو جھٹکا لگا ہے اس کی وجہ سے ایشیائی ممالک کو ایشیا کی سیکورٹی اور سلامتی کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔ ان ممالک میں سے ہر ایک نے اپنی توانائی کے مطابق اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا ہے۔
چین نے کہ جہاں دنیا کی بیس فیصد آبادی موجود ہے، پہلے سے اعلان کر رکھا تھا کہ اسے خطرات کا سامنا ہے۔ خصوصا اس لیے کہ دنیا کے اس سب سے بڑی آبادی والے ملک کے لیے تقریبا ایک سوبیس قومیتوں، نسلوں اور مذاہب کے لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر خطرہ بن سکتے ہیں۔ بعض ترک زبان اویغور مسلمانوں کے گاہے بگاہے مشکوک اور بدامنی پر مبنی اقدامات بیجنگ حکام کی مزید ہوشیاری کے متقاضی ہیں۔
چینی قیادت نے کئی بار عالمی برادری کو خبردار کیا تھا کہ دنیا میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم عزم و اراداے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر چین عالمی برادری کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ دہشت گردی کی ایک مشترکہ تعریف پیش کی جائے تاکہ اس کا مقابلہ کرنا دشوار اور مشکل نہ ہو۔
اسی واضح دلیل کی بنا پر چین کی نظر میں دہشت گردی کا مقابلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے کہ جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اس سے وابستہ اور متعلقہ ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ذمہ داری سنبھالیں۔
درحقیقت اقوام متحدہ اس سلسلے میں اہم اور قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ دو ہزار پانچ میں چین اور روس کے سربراہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی پالیسیوں کے تناظر میں ایک بیان پر دستخط کیے کہ جس میں اہم ترین عالمی مسئلے کی حیثیت سے دہشت گردی پر خصوصی توجہ دی گئی تھی اور یہ ایک ایسے وقت میں تھا کہ جب چین اور روس دہشت گردی کا بہت زیادہ شکار بھی ہوئے تھے۔
اس بنا پر چین اور روس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ تعاون کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا۔ اسی زمانے میں چین اور روس نے دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام لڑی جانے والی امریکی جنگوں کی مخالفت کا اعلان کیا۔
چین اور روس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی تمام شکلوں کے خلاف جنگ، بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنا کر اور دہشت گردی کے خلاف جامع، طویل مدت اور اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قیادت میں ایک حکمت عملی اور اسٹریٹیجی تیار کر کے اور اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین کے دیگر اداروں کے منشور کے تحت لڑی جانی چاہیے۔
یہ ایسے وقت میں تھا کہ جب چین نے دہشت گردی کو کسی خاص ملک یا دین، یا کسی خاص آئیڈیالوجی اور قوم کے ساتھ جوڑنے کی مخالفت اور دہشت گردی کے سلسلے میں دہرے رویے اپنانے کی مذمت کی۔ چین کا کہنا ہے کہ جب تک اقوام متحدہ کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوں گی اور متعلقہ اداروں کو مکمل اختیارات حاصل نہیں ہوں گے، تو کسی بھی خطرے اور چیلنج کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔
جبکہ دہشت گردی ان ہی سیاسی چیلنجوں اور گہرے اقتصادی شگافوں سے پیدا ہوتی ہے اور یقینا کوئی خاص ملک اپنے خاص مفادات کے لیے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ زمینی حالات کا سنجیدہ اور صحیح تجزیہ و تحلیل نہ ہونے کی وجہ سے نامکمل رہے گی۔