الوقت -ایران کے نائب وزیر خارجہ حسن امیر عبداللھیان نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے نتیجے میں پوری دنیا کو ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ویانا میں اپنے روسی ہم منصب میخائل بوگدانوف اور شام میں کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسٹیفن ڈی مستورا کے ساتھ سہ فریقی اجلاس سے قبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ایران کے نائب وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کی تقویت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے پیریس میں رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے ثابت ہوگیا ہے کہ دوہرے معیاروں اور دہشت گردی کی اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم کے پورے خطے کے لیے ناگوار نتائج برآمد ہونگے۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ویانا -2 اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات پر توجہ اور دہشت گردوں کو سخت پیغام جانا چاہیے۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ویانا اجلاس میں شریک وفود شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ ایسا کرنا صرف شامی عوام کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اجلاس کو ایسا ماحول تیار کرنے کوشش کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں شامی عوام اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خودکرسکیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انہیں کامیابی نصیب ہو۔
۔ امریکہ، روس، فرانس، چین، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، ترکی، مصر، قطر، عمان، یورپی یونین کے نمائندے اور شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میسٹورا نےاس کانفرنس میں شرکت کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد کی قیادت وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کی۔ ۔ ویانا میں سفارتی ذرائع کے بقول اس کانفرنس میں ماہرین کی سطح پر تین ورکنگ گروپ بند کمروں میں تشکیل پائے۔ ویانا ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بحران شام کے حل کے لیے سیاسی مذاکرات کے پہلے دور میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں اور ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف سمیت دنیا کے سترہ ملکوں کے وزرائے خارجہ نے گفتگو کی اور نو شقوں پر مشتمل ایک بیان جاری کیا۔ اس وقت ویانا دو کانفرنس کا ہدف اور محور شامی حکومت کے مخالفین کی حقیقی شناخت کے بارے میں تھی؛ لیکن شام کے مذاکرات میں شرکت کو اپنے ملک کی تقدیر کے بارے میں شامی عوام کے فیصلے اور بشار اسد کی سیاسی زندگی کے جاری رہنے میں مداخلت کے مترادف نہیں سمجھنا چاہیے۔ پیرس میں پیش آنے والے دہشت گردی کے ہولناک واقعات اور اس کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے اٹلی، ویٹیکن اور فرانس کے دورے کی منسوخی اس اہم مسئلے کو بیان کرتی ہے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب مغرب یہ خیال کر رہا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو شام، عراق اور لبنان کی سرحدوں کے اندر اچھے اور برے میں تقسیم کر سکتا ہے اور ان میں سے بعض کے خلاف جنگ اور بعض کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے سیاسی فائدہ اٹھا سکتا ہے؛ لیکن اس وقت دہشت گردی اس مصنوعی حصار سے نکل کر یورپ کی سرحدوں کے اندر اور ایشیا سے لے کر افریقہ و امریکہ کے دیگر علاقوں میں داخل ہو چکی ہے اور مغرب بھی اس کی قیمت چکا رہا ہے۔ اس وقت ویانا کانفرنس اس سلسلے میں نظرثانی کے لیے ایک اور بہترین موقع تھی۔ البتہ ویانا کانفرنس اس وقت ایک قابل قبول نتیجے تک پہنچ سکتی ہے کہ جب اس کو منعقد کرنے والوں کا مقصد امن کا قیام ہو نہ کہ شام کے لیے سیاسی مستقبل کو ڈکٹیٹ کرنا۔ لیکن بشار اسد کے مستقبل کے بارے میں ویانا اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک کے مواقف مکمل طور پر مختلف ہیں۔ امریکہ نے اس اجلاس میں بدستور شام کے سیاسی نظام میں صدر بشار اسد کے کردار کو ختم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کر کے ویانا دو کانفرنس کے راستے کو اپنے معین کردہ راستے پر چلانے کی کوشش کی۔ امریکیوں نے صہہونی حکومت کی مسلسل اور بےدریغ حمایت کر کے ظاہر کر دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے سنجیدہ اور حقیقت پسند نہیں ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب روسی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ویانا کانفرنس میں شام کے صدر بشار اسد کے مستقبل کا جائزہ نہیں لیا جانا چاہیے اور اس کانفرنس کا مرکزی نکتہ شام میں کشیدگی کا حل ہونا چاہیے۔ ان گہرے اختلافات کے پیش نظر ایران کے وزیر خارجہ نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ بعید ہے شام کے بارے میں ویانا کانفرنس کا کوئی اہم نتیجہ برآمد ہو سکے۔ محمد جواد ظریف نے روزنامہ السفیر کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے علاقے کو سنگین خطرات لاحق ہیں اور یہ صرف شام تک محدود نہیں ہیں لیکن ویانا کانفرنس میں شریک امریکہ اور اس کے اتحادی ہمارے علاقے کو لاحق خطرات کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔
امریکہ، سعودی عرب اور ترکی نے چونکہ نام نہاد اعتدال پسند مخالفین کی اصلاح گھڑی ہے اور وہ ان کو ہتھیار فراہم کرتےہیں اس لئے شام کی حکومت کے مخالفین اور دہشت گردوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنا مشکل ہو چکا ہے اور شام میں سرگرم طاقتیں اس مسئلے کو سیاسی زاویۂ نگاہ سے بھی دیکھ رہی ہیں۔
شام کے گروہوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں غیر ملکی سرگرم طاقتوں کی شرکت کو اپنے ملک کی تقدیر سے متعلق شام والوں کے فیصلے اور بشار اسد کی سیاسی حیات کی بقا کا نعم البدل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ ہر ایسے حل اور کوشش سے ، کہ جس میں شام کےعوام کی مرضی شامل نہیں ہوگی، اس ملک کا بحران مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔
ویانا اجلاس شام کے عوام کے بجائے فیصلے کرنے اور بشار اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے بارے میں سودے بازی کا میدان نہیں ہے۔ کسی بھی غیر ملکی طاقت کو شام کے عوام کو ڈکٹیشن دینے کی کوشش اور ان کے لئے سیاسی عمل سے متعلق اقدامات کا تعین کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اپنے ملک کے مستقبل اور بشار اسد کی سیاسی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اس ملک کے عوام کو حاصل ہے اور ایک آزاد جمہوری عمل کے ذریعے صرف وہی بشار اسد کے اقتدار میں باقی رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں ۔
بشار اسد کو اقتدار سے الگ کرنے کے مقصد سے ٹائم فریم طے کرنے سے متعلق ہر طرح کی تجویز آخرکار ناکامی سے دو چار ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شام کے عوام اور حکام اس بات کو ہر گز قبول نہیں کریں گے کہ دوسرے ملک حتی کہ شام کے دوست بھی ان کے لئے کوئی بدعت قائم کریں۔