الوقت- امریکہ کو افغانستان میں آئے اب کئی عشرے گزر چکے ہیں لیکن اسے کوئی نمایاں کامیابی ابھی تک نصیب نہیں ہوسکی۔افغان قوم کو اپنی مٹھی میں لینے کے لئے اس نے متعدد حربے استعمال کئے لیکن کوئی کارگر ثابت نہیں ہوا۔طالبان کی تخلیق سے اشرف غنی کو رام کرنے کی تمام کوششیں امریکہ کو اپنے ہدف سے قریب لانے کی بجائے دور کررہی ہیں۔ حال ہی میں پینٹاگون کے ترجمان جیمز ڈیوس نے کہا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے طالبان کے خلاف کوئی اقدام انجام نہیں دے گا کیونکہ یہ افغانستان میں قیام امن کے عمل کو جاری رکھنے کے سلسلے میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والا ایک فریق ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ طالبان کے خلاف امریکی فوجیوں کی کارروائیاں بند ہو چکی ہیں۔ جیمز ڈیوس کے بقول افغانستان کے امن مذاکرات میں طالبان کی شرکت بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اس لئے امریکہ ان کے خلاف کارروائیاں انجام دینے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان نے مزید کہا کہ امریکہ اس وقت افغانستان میں قیام امن کے لئے اس ملک کی فوج کی مدد کر رہا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ ایسی حالت میں افغانستان میں امن کے قیام کی بات کر رہا ہے کہ جب اس نے گزشتہ چودہ برسوں میں نہ صرف افغانستان میں امن کے قیام کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام انجام نہیں دیا ہے بلکہ افغانستان کی حکومت کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کے دائرے میں بھی اس نے حالیہ ایک برس کے دوران اس ملک کی قومی پولیس اور فوج کی تقویت اور ان کو مسلح کرنے کے سلسلے میں بھی کوئی کام انجام نہیں دیا ہے۔
افغانستان کے اراکین پارلیمنٹ نے بارہا اپنے ملک کی حکومت سے امریکہ کے ساتھ ہونے والے سیکورٹی معاہدے کے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ نے سنہ دو ہزار ایک میں دہشت گردی کے مقابلے اور افغانستان میں قیام امن کے بہانے اس ملک پر حملہ اور قبضہ کر لیا۔ افغان عوام کو توقع تھی کہ امریکہ افغانستان میں قیام امن کے اپنے وعدوں پر عمل کرے گا لیکن واشنگٹن نے خفیہ طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیئے۔ حتی اس نے طالبان کو قطر میں دفتر قائم کرنے کی بھی اجازت دے دی۔
امریکہ کے اقدام پر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے شدید اعتراض کیا۔ کابل حکومت نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عمل افغانستان کے آئین اور اس ملک میں قیام امن کے دائرہ کار میں انجام پانا چاہئے۔ کابل حکومت کے مطالبے کے باوجود امریکہ نے افغانستان کے امن عمل کو آگے بڑھانے کے لئے طالبان اور پاکستان پر سنجیدگی کے ساتھ دباؤ نہیں ڈالا۔
افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں طالبان کے ایک فریق ہونے کے بارے میں واشنگٹن کی تاکید کے معنی یہ ہیں کہ امریکہ اس بحران کو افغانستان کا داخلی بحران قرار دے کر اور دہشت گردی سے مقابلے کے لئے افغان فوج اور سیکورٹی فورسز کی تقویت اور سیکورٹی معاہدے سے متعلق اپنی ذمےداریوں سے فرار اختیار کرنے کے درپے ہے۔
طالبان کے دو گروہوں میں بٹ جانے سے، کہ جس کو اسلام آباد نے طالبان کا داخلی معاملہ قرار دیا تھا، بلا شبہ افغانستان کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان بظاہر افغانستان امن عمل کی حمایت کرتے ہیں لیکن افغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات کے لئے افغانستان کے بحران سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی حکومت اور عوام کابل اور طالبان کے مذاکرات کے دوسرے دور کے انجام نہ پانے کا ذمےدار پاکستان کو قرار دیتے ہیں کہ جو افغانستان کے بحران اور مشکلات کے حل کا خواہاں نہیں ہے۔ افغانستان کی حکومت اور عوام کا یہ زاویہ نگاہ کابل، اسلام آباد تعلقات میں سیاسی اور سیکورٹی کشیدگی کا باعث بنا ہے۔ جس کے نتیجے میں افغانستان کا بحران مزید پیچیدہ ہوچکا ہے۔
بہرحال افغان حکام کے نزدیک اس ملک کی فوج کو اس وقت تربیت سے زیادہ فوجی سازو سامان خصوصا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی ضرورت ہے۔ اسی لئے کابل حکومت یہ ساز و سامان روس اور ہندوستان سے حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔کابل حکومت نے اب صرف امریکہ کی طرف دیکھنے کی بجائے چاروں طرف دیکھنا شروع کردیا جس سے اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ اب امریکہ کے نزدیک انکی قدرومنزلت میں اضافہ ہوگا۔ لگتا ہے افغان سیاستدانوں نے اپنے ہمسایہ ملک پاکستان سے یہ راستہ اور ٹیکنیک سیکھی ہے اگر یہ دونوں ممالک امریکہ کی چھتری کی بجائے علاقائی ممالک اور امریکہ مخالف اتحاد سے اپنی ہم آہنگی بڑھا لیں تو کئی علاقائی تبدیلیوں کو صحیح جہت مل سکتی ہے۔