الوقت- ترکی میں یکم نومبر کو عام انتخابات ہوئے اور ان میں اردوغان کی انصاف و ترقی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئي۔ ترکی کے عام انتخابات میں انصاف اور پرقی پارٹی کی کامیابی سے ترکی کے حالات میں خاصی تبدیلی کی توقع کی جارہی ہے۔ ترک آئين کے مطابق صدر سب سے بڑی پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے اس طرح وزیر اعظم احمد داود اوغلو ایک بار پھر اپنی حکومت تشکیل دیں گے اور آئندہ ایک ماہ میں کابینہ کا اعلان کرکے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔
ترکی میں دو الیکشنوں کے درمیان رونما ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہےکہ صدر اردوغان کی پارٹی نے دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کے لئے بڑی وسیع منصوبہ بندی کی تھی۔ دوسری طرف انصاف و ترقی پارٹی نے دو الیکشنوں کے درمیان پانچ مہینوں کے عرصے میں اپنے مخالفین کو آئندہ کی حکومت سے باہر رکھنے کے لئے کوئي دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ انصاف و ترقی پارٹی صرف اپنی ہی حکومت بنانے کا ھدف رکھتی تھی اور اسے اس ھدف کے حصول کے لئے دو سو چھہتر سیٹیوں کی ضرورت تھی۔ انصاف و ترقی پارٹی کے سربراہ احمد داود اوغلو نے انتخابات کے موقع پر کہا تھا کہ ترکی دوبارہ انتخابات کرانے کی توانائي نہيں رکھتا۔ انہوں نے گذشتہ پانچ مہینوں میں مخلوط حکومت تشکیل دینے کے دشوار تجربوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انصاف اور ترقی پارٹی کے سامنے صرف ایک راستہ بچتا ہے اور وہ ایک پارٹی کی حکومت تشکیل دینا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے بھی پارٹی کے نعرے "پائدار حکومت ایک پارٹی کی حکومت "کا نعرہ لگایا تھا، اس پارٹی کے رہنما اس قدر اطمینان سے یہ نعرہ لگارہے تھے کہ رائےعامہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی تھی کہ انصاف و ترقی پارٹی کہیں دھاندلی کا کھیل کھیلنے کی تیاری تو نہیں کررہی ہے۔ جمہوری ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کیس بنا کر اسے منحل کرنا، ٹارگٹ کلنگ، تشدد سے عوام کو کچلنا یہانتک کہ فوجی بغاوت ایسے مسائل تھے جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ انصاف و ترقی پارٹی یہ اقدامات کرسکتی ہے۔ سرانجام انصاف اور ترقی پارٹی نے عوام کی طرف سے کسی مخالفت کے بغیر بیشتر سناریوز پر عمل درامد کرنا شروع کردیا جن کا احتمال حزب اختلاف دے رہی تھی۔ اس بنیاد پر ایسے عالم میں جبکہ تشخص کی طالب ترک قوم کی اکثریت نے ملک کی سکیورٹی اور قومی تشخص کو ہمیشہ کی طرح اقتصادی اور سیاسی اور سماجی مطالبات پر مقدم رکھا، پی کےکے گروہ کے خلاف جنگ اور تفرقہ انگيز بیرونی ہاتھوں کا مقابلہ کرنا ایک کامیاب پالیسی تھی جو اردوغان کی پارٹی نے عوام کے ووٹ جیتنے کےلئے اپنائي تھی۔ دراصل انصاف اور ترقی پارٹی نے دونوں الیکشنوں کے درمیاں پانچ ماہ کے موقع سے اپنی مخالف غیر سرکاری اور تجارتی تنظیموں کی سرکوبی، اپنے مخالف ذرایع ابلاغ کو کنٹرول میں لانے، اور مخالف صحافیوں نیز سیاسی شخصیتوں کو مرعوب کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے لئے بخوبی استفادہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس اسٹراٹیجی سے انصاف اور ترقی پارٹی کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا ہے۔ اسی بنا پر ایسا لگتا ہے کہ اردوغان نے عدم استحکام کی حکمت عملی اور بحران و آشوب پیدا کرنے کی پالیسی سے ایک طرف سے اپنے مخالفین پر دباؤ بڑھانے میں کامیابی حاصل کی اور دوسری طرف سے ترک عوام کو اطمینان دلایا کہ گذشتہ تیرہ برسوں کی طرح صرف انصاف اور ترقی پارٹی کی حکومت ہی ترکی کو مشکلات اور بحرانوں سے نکال سکتی ہے اور ملک میں سیاسی، سماجی، اور اقتصادی استحکام لاسکتی ہے۔ اس ھدف کے لئے اردوغان نے عبوری حکومت کی تشکیل میں جان بوجھ کر تاخیر کی تا کہ حکومت کے فقدان کی بنا پر اقتصادی ترقی رک جائے اور عوام یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ جلد از جلد حکومت بنائي جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انصاف اور ترقی پارٹی نے حکومت کے خلاء، ملک میں تشدد اور بدامنی، اقتصادی جمود اور دہشتگردی جیسے مسائل سے فائدہ اٹھا کر عوام کو مخلوط حکومت کے خطروں سے لاحق تاریخ خدشات کی یاد دہانی کرائی۔ اس کے علاوہ ترکی میں پیش آنے والے خود کش حملے، پی کےکے گروہ کے ساتھ جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کے جلوس ہائے جنازہ، دہشتگردی سے عوام کو ڈرانا اور اقتصادی بحران سے تشویش پیدا کرنا رجب طیب ارودوغان کی اسٹراٹیجی میں شامل مسائل تھے جن سے انہوں نے قبل او وقت انتخابات میں بھرپور فائدہ اٹھایا اور وہ اپنی اس حکمت عملی کے نتیجے میں کامیاب بھی ہوگئے اور یکم نومبر کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی کو ہی سب سے زیادہ ووٹ ملے۔ یکم نومبر کے عام انتخابات کا سب سے اہم پیغام پی کےکے گروہ کے لئے ہے جو علیحدگي پسند سمجھا جاتا ہے اور وہ پیغام یہ ہے کہ عوام نے ان لوگوں کو ووٹ دینے سے انکار کردیا ہے جو ڈرانے دھمکانے اور تشدد کی پالیسیاں اپناتے ہیں۔ اردوغان کے بیانات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ عدم استحکام پیدا کرنے کی حکمت عملی سے مکمل طرح سے خوش ہیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہےکہ انصاف و ترقی جس کو سات جون کے انتخابات میں شکست ہوئي تھی اس نے بحران پیدا کرکے ترکی کو ایک بار پھر انتخابات کے اکھاڑے میں لاکھڑا کیا اور انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور محض پانچ مہینوں میں اپنے ووٹوں میں بے پناہ اضافہ کرلیا۔