داعش گروہ بھی نظریاتی نیز اپنے طور طریقوں اور اپنے خود ساختہ افکار و نظریات اور آئیڈیاز کے لحاظ سے غاصب صیہونی حکومت سے بہت زیادہ شباہت رکھتا ہے، یہ گفتگو ایک تحقیقاتی کاوش کا نتیجہ ہے کہ جو غاصب صیہونی حکومت اور داعش کے درمیان پائی جانے والی شباہتوں اور خطے میں موجود انکے مشترکہ اہداف کے سلسلے میں انجام دی گئی ہے۔ جس کے حصول کے لئے وہ کوشاں ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت ایک دینی آئیڈیولوجی کا سہارا لے کر اور دین یہودیت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے بنائی گئی ہے لیکن اس کو بنانے والوں کی نگاہ ہرگز نظریاتی نہیں تھی اور انہوں نے صرف اور صرف اپنی اہداف حاصل کرنے کے لئے یہودیت کا سہارا لیا۔
فرانس کے مشہور تاریخ دان، محقق اور اندیشمند روژہ گارودی اپنی کتاب "اسرائیل کی دستاویز، سیاسی صیہونیت" میں لکھتے ہیں کہ صیہونیت صرف ایک سیاسی نظریہ ہے کہ جو صرف اور صرف برطانوی سامراج اور یہودیوں کی سرمایہ داری کے گٹھ جوڑ کے لئے اور غاصب صیہونی حکومت کی شکل میں دوسری جنگ عظیم میں اور مغرب کے مغربی ایشیا پر تسلط کو کامیاب بنانے نیز قدرتی ذخائر سے مالا مال اس اس خطے کی تاراجی اور نئے انداز سے لوٹ مار کے سلسلے کو شروع کرنے کے لئے وجود میں آیا اور اس نے اپنی حیات کے سلسلے کو آگے بڑھا رہا ہے۔الوقت- صیہونیت کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے جرائم صرف فلسطین کے مسلمانوں تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اس نے تمام ادیان کے پیرکاروں کو نشانہ بنایا اور اس کا دین کا دعویٰ صرف ایک بہانہ اور توجیہ تھا۔صیہونیت نے ادیان الہی کی جانب سے بیداری اور ظلم کے خلاف قیام کو کبھی بھی قبول نہیں کیا بلکہ یہ صرف اس لئے وجود میں آئی ہے کہ ادیان الہیٰ کے مقابلے میں آ ئے اور اس کام کے لئے سب سے پہلا قدم یہودیت کا چہرہ مخدوش کرنا تھا۔صیہونی اپنی اس تخریبی سازش میں کامیاب رہے یہاں تک کہ استقامت کے محاذ سے مقابلے، خطے کے ذخائر کی بربادی اورمغربی ممالک کے فوجیوں کی علاقے میں موجودگی کے لئے راہ ہموار کرتے نیز، عالم اسلام میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے جیسی سازشوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔غاصب صیہونی حکومت اور داعش کے جرائم کی اگر نظریاتی زاویے سے تحقیقات کی جائیں تو انکے درمیان مشترکہ نکات من جملہ اہداف و مقاصد طریقہ کار میں یکساں اور واضح طور پر سامنے آتی ہیں اور یہی خصوصیات انکے باہمی تعاون کی نشاندہی کرتی ہیں۔
صیہونیوں کے نیل سے فرات تک کے منصوبے اور داعش کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی سازش انہی مشترکات میں سے ایک ہے۔ صیہونیت نسل پرستی یا یہودیوں کی برتری کے نظریئے نیز تورات سے منصوب جھوٹے دعوے یعنی "نیل سے فرات" کو سامنے رکھتے ہوئےاور بغیر کسی فکری آئیڈیولوجی کے یہودیت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے وجود میں آئی ہے۔
ایک اور عامل کہ جو داعش اور صیہونیت میں مشترکہ طور پر واضح نظر آتا ہے، ہحرت اور ان دونوں کا اپنے فکری مراکز میں آبادی میں اضافے کا نظریہ ہے۔ داعش کے نظریات میں دوسرے خلیفہ کی یہ بات، یعنی " خلافت، جماعت، امارت اور اطاعت" کا نظریہ اپنی اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے کہ جو انکی خودساختہ حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ اسکے علاوہ یہ گروہ پیغمبر اکرم ص کی احادیث، جن میں "جماعت، سمع، اطاعت، ہجرت اور جہاد" وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے نظریات کے بنیادی ستون قرار دیتا ہے ۔ اسی بنا پر ہجرت کے موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اپنے پروپیگنڈوں میں اس پر بہت زور دیتا ہے اور اس پر یقین رکھتا ہے اور اپنے ماننے والوں سے بھی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ شام چونکہ خلافت کی تاسیس کا اولین مرکز ہے لہذا اس علاقے کی جانب ہجرت کریں۔
یہ قرائن اور شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی صیہونیوں کی طرح اپنی اکثریتی آبادی بنانے کے لئے اپنے ہم فکر افراد کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش میں ہیں۔