الوقت کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ماہ سے مختلف خبری ذرائع خاص کر مغربی میڈیا اس بات کا پروپیگنڈا کررہا تھا کہ میانمار کے حالیہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ماحول میں منعقد ہونگے جس میں اس ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور تمام قومی،لسانی اور نسلی گروہ شرکت کریں گے ۔ تاہم میانمار کے قومی محاذ کی اہم جماعت اور اصل اپوزیشن قومی جمہوری پارٹی جسکی قیادت آنگ سان سوچی کے پاس ہے نے انکشاف کیا ہے کہ روہنگیا کے لاکھوں مسلمان شہری قومی اور نسلی بنیادوں کی وجہ سے نہ تو انتخابات میں شرکت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے امید وار کو ووٹ دے سکتے ہیں ۔
اس سارے سناریو میں سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ آنگ سان سوچی کی پارٹی بھی ان جماعتوں کا ساتھ دے رہی ہے جو مسلمانوں کی انتخابات میں شرکت کے مخالف ہیں۔انکے اس موقف سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی میانمار کی دیگرانتہا پسند قوم پرست پارٹیوں اور گروہوں کی طرح مسلمانوں کو سیاسی اور قومی زندگی سے مکمل طور پرالگ کرنے کے طے شدہ پروگرام میں شریک تھیں۔
بہرحال میانمار کے حوالے سے محترمہ سان سوکی سب سے زیادہ میانمار کے سیاسی اتار چڑھاؤ سے آگاہ ہیں وہ اور انکی جماعت 1990 کے انتخابات میں کامیاب ہوئی تھیں لیکن اس ملک کی فوج نے طاقت کے بل بوتے پر ان کی جماعت پر ہمیشہ کے لئے پابندی عائد کردی تھی آج وہی تاریخ میانمار کے مسلمانوں کے خلاف دہرائی جارہی ہے ۔