الوقت- پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں کی عوام میں اسلام سے محبت اور اپنے دین کے لئے قربانی کا جذبہ بے مثال ہے۔اسلام دشمن طاقتوں اور سامراجی قوتوں نے ہمیشہ اس سے غلط فائدہ اٹھایا ہے۔ان قوتوں نے پاکستانی قوت کے اس جذبے کو کبھی کشمیر میں اور کبھی افغانستان میں اپنے اہداف کے لئے استعمال کیا۔اسلام اور اپنے فرقہ اور مکتب سے شدید محبت کی وجہ سے اس ملک میں فرقہ ورایت سے غلط استفادہ بھی ایسا المیہ رہا ہے جس نے انتہا پسندی اور مذہبی دہشتگردی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی 80 کے عشرے میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی نے پاکستان کے بارے میں سامراج کے بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کیا تو انہوں نے پاکستان میں فرقہ ورانہ دہشتگردی کی ایسے بیج بوئے جو آج تناور درخت بن کرپاکستان میں آکاش بیل کا کام کررہے ہیں۔ہزاروں افراد فرقہ روانہ دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں لیکن اسکے تھمنے کے امکان دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔فرقہ واریت کا یہ عفریت کبھی سپاہ صحابہ کبھی لشکر جھنگوی اور کبھی داعش کے نام سے سرگرم عمل رہا ہے۔حال ہی میں
پاکستان کے صوبہ سندھ کے پولیس سربراہ غلام حیدر جمالی نے پاکستان کے شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے اس ملک میں دو دہشت گرد گروہ داعش اور لشکرجھنگوی کے درمیان قریبی تعاون کی خبر دی ہے- انھوں نے کہا کہ صوبہ سندھ میں داعش دہشت گرد گروہ اور لشکر جھنگوی کے درمیان قریبی رابطہ ہے اور وہ شیعوں پر دہشت گردانہ حملےکرنے کی کوشش میں ہیں -
صوبہ سندھ کے پولیس سربراہ نے کراچی میں شیعوں کی بس پر حملے کے ذمہ داروں سمیت گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے سلسلے میں کہا کہ یہ افراد پاکستان میں اسلامی نظام خلافت قائم کرنے کے خواہاں تھے -
کراچی میں شیعہ مسلمانوں کی بس پر حملے میں چالیس سے زیادہ شیعہ شہید ہوگئے تھے اور اس حملے کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کی تھی- صوبہ سندھ کے پولیس سربراہ نے پاکستانی سینٹ کے داخلی امور کی کمیٹی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پاکستان میں شیعہ، داعش دہشت گرد گروہ کی ہٹ لسٹ پر ہیں
داعش دہشت گرد گروہ کے نفوذ اور اس کی سرگرمیوں میں اضافے کا موضوع، گذشتہ ہفتے پاکستان کے صحافتی اور سیاسی حلقوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے- بالخصوص یہ کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی ریاستی حکومت نے گذشتہ برس اکیس اکتوبر کو وفاقی حکومت اور اس ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خفیہ خطوط بھیج کر اس ملک میں داعش دہشت گرد گروہ کا اثر و نفوذ بڑھنے کے بارے میں خبردار کیا تھا -
اگرچہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے پولیس سربراہ نے ملک میں شیعوں کے خلاف داعش اور لشکرجھنگوی کے درمیان قریبی تعاون کی خبر دی ہے لیکن کچھ دنوں قبل پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے اس ملک میں داعش کی موجودگی کو مسترد کردیا تھا راحیل شریف کے اس بیان کو کہ پاکستانی فوج اس ملک پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دے گی ، بعض ماہرین کی جانب سے پاکستان میں اس دہشت گرد گروہ کی موجودگی کو مسترد کئے جانے کے مترادف سمجھا گیا- البتہ جنرل راحیل شریف نے اپنے بیانات کے دوسرے حصے میں جس میں داعش کے خلاف جنگ کو پاکستانی فوج کی ترجیحات میں قرار دیاگیا تھا، اس ملک میں داعش کی عدم موجودگی پر مبنی اپنے بیان کی نفی کردی - تھی ۔داعش کے بارے میں پاکستانی فوج کے کمانڈر کے متضاد بیانات کے باوجود شاید پہلی بار پاکستان کے ایک اعلی عہدیدار نے اس ملک میں داعش کی موجودگی اور اس ملک میں دہشت گردانہ حملوں کے لئے اس کے پروگراموں کے بارے میں کھل کر بات کی ہے -
پاکستان کے صوبہ سندھ کے پولیس سربراہ کے بیانات دو پہلؤوں سے اہمیت کے حامل ہیں- ایک تو یہ کہ پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے لئے داعش کے ٹھوس پروگرام کی پولیس کے ایک اعلی عہدیدار کی جانب سے تصدیق کی گئی ہے اور لشکر جھنگوی سمیت دوسرے تمام دہشت گرد گروہوں کے ساتھ داعش کا تعاون پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے لئے مزید سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے مرکز توجہ ہونا چاہئے- دوسرے یہ کہ غلام حیدر جمالی کے بیان کے مطابق ، شیعہ مسلمان، داعش دہشت گرد گروہوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں اور یوں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو پاکستان میں عوام خصوصا شیعہ مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے ضروری تدابیر اختیار کرنا چاہئے -
ان حالات میں پاکستانی معاشرے کو اپنی حکومت سے لشکرجھنگوی اور داعش جیسے انتہاپسند گروہوں کی ممکنہ دہشتگردانہ کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے انسداد دہشت گردی کے لئے ٹھوس پروگرام تیار کرنے اور امن عامہ بالخصوص شیعہ مسلمانوں کے لئے جو گذشتہ برسوں میں پاکستان میں انتہا پسند گروہوں کا اصلی نشانہ رہے ہیں، سیکورٹی فراہم کئے جانے کی توقع ہے -ان فوری اقدامات کے ساتھ ساتھ ان بنیادی اقدامات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جو فرقہ واریت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ضروری ہیں۔فرقہ واریت کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور یہ صرف بیانات اور حکومتی فیصلوں سے حل ہونے والا نہیں ہے اسکے لئے پاکستانی معاشرے کے ہر باشعورفرد بالخصوص علما،دانشوروں اور ثقافتی ماہرین کومیدان میں اترنا پڑے گا۔