الوقت- کہتے ہیں ایک شہر میں ایک حاسد شخص رہتا تھا جو بہت مالدار تھا لیکن وہ ہرایک سے شدید حسد کرتا تھا ۔اسے سب سے زیادہ حسد اپنے ہمسائے سے تھی ایک دن اس امیرشخص نے اپنے غلام کو اپنے ساتھ لیا اور چھت پر آگیا اس نے اپنے غلام سے کہا تم ایسا کرو مجھے قتل کرکے میری لاش کو ہمسائے کی چھت پر پھینک دواور شور مچا دو کہ ہمسائے نے میرے آقا کو قتل کیا۔غلام نے اپنے آقا سے اسکی وجہ پوچھی تو اس نے کہا میں اپنے ہمسائے کی ترقی اور خوشحالی کو نہیں برداشت کرسکتا اور اسکے باوجود کہ میرے پاس اس سے زیادہ دولت ہے لوگ اس کا مجھ سے زیادہ احترام کرتے ہیں۔جب میرے قتل کا الزام اس پر لگے گا تو ایک تو اس سے اسکی بدنامی ہوگی دوسرا اس الزام سے جان چھڑانے کے لئے اسکا اتنا پیسا خرچ ہوگا کہ اسکی دولت اور سرمایہ بھی خرچ ہوگا اور یہ مذیدغریب ہوجائیگا۔میں جب بھی اس کہانی کو پڑھتا یا اسکے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے آل سعود اس حاسد شخص کی صورت میں نظر آتے ہیں جو ایران کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنی قومی دولت کو پانی کی طرح بہا رہے ہیں حال ہی میں
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی عرب نے ایک بار پھر اپنے تیل کی قیمت کم کرتے ہوئے اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ جب تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک نے ویانا میں گزشتہ مہینے اپنے اجلاس میں واضح طور پر کہا تھا کہ اوپیک کے رکن ممالک تیل کی پیداوار میں اضافہ اور تیل کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی نہیں کر سکتے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں تیل کی قیمت میں نصف سے زیادہ کمی اقتصادی وجوہات سے زیادہ سیاسی عوامل کی بنیاد پر کی گئی ہے۔ روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنی حالیہ اشاعت میں لکھا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا مقصد کہ جس کے منصوبہ ساز علاقے میں امریکہ کے اصلی اتحادی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور کویت ہیں، روس کے اقتصاد کو مفلوج کرنا اور اسے نقصان پہنچانا ہے۔ ماہرین کے بقول اگر آئندہ سال کے دوران تیل کی متوسط قیمت بدستور پچاس ڈالر فی بیرل سے کم رہی تو اس سے روسی حکومت کو مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ روس دنیا میں تیل کی بیس فیصد اور قدرتی گیس کی قابل ذکر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب ایران کے ایٹمی سمجھوتے کے مخالف کیمپ میں شامل ہے کیونکہ اس کو ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور اوپیک اور تیل کی منڈیوں میں ایران کی بھرپور اور موثر واپسی پر تشویش ہے۔ اس بنا پر وہ اپنے زعم باطل میں اس حربے کے ذریعے ایران کی تیل کی صنعت کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پالیسی کو جاری رکھنا لیکن سعودی عرب کے لیے آسان نہیں ہے اور اسے بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ تیل کی طلب میں کمی کے باوجود سعودی عرب کی جانب سے اپنی پیداوار کو بڑھا کر ایک کروڑ پانچ لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچا دینا آل سعود خاندان کے لیے ایک خطرہ ہے جس سے اس کا شیرازہ بکھر سکتا ہے اور تیل کی قیمت کے مسئلے پر جنگ جاری رہنے سے اس کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سعودی عرب کی نوے فیصد قومی پیداوار کا تعلق تیل سے ہے اور سعودی حکام نے گزشتہ پچاس برسوں کے دوران اپنی آمدنی کے ذرائع بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ سعودی عرب کے مالی ذخائر گزشتہ سال اگست کے مہینے میں سات سو سینتیس ارب ڈالر تھے کہ جو صحیح سرمایہ کاری نہ کرنے کی بنا پر گھٹ کر چھے سو تہتر ارب ڈالر رہ گئے اور اعداد و شمار اور تجزیوں کے مطابق یہ ہر مینے بارہ فیصد کم ہو رہے ہیں اور مغرب والوں کے اندازوں کے مطابق سعودی عرب کے مالی ذخائر دو ہزار اٹھارہ میں کم ہو کر دو سو ارب ڈالر رہ جائیں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے مصر کے صدر جنرل السیسی سے کیے گئے مالی وعدوں، یمن اور شام کی جنگوں کے اخراجات اور بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت کے اخراجات کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، بعض جائزوں میں ان اخراجات کا تخمینہ اب تک پینتالیس ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔ سعودی عرب کے داخلی حالات کو بھی دیکھیں تو اس وقت تقریبا تیس لاکھ افراد ماہانہ بے روزگاری الاؤنس وصول کر رہے ہیں کہ جن میں اکثریت اس ملک کے نوجوانوں کی ہے۔ یہ تمام باتیں سعودی عرب کے رجعت پسند حکمرانوں کی بے تدبیری کی نشانیاں ہیں کہ جو انھیں تیزی سے زوال کی جانب لے جا رہی ہے۔ سعودی عرب کہ جو اس وقت روزانہ تقریبا ستر لاکھ بیرل تیل برآمد کر رہا ہے، اس دباؤ کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اور تیل کی پیداوار میں اضافے اور اس کی قیمت میں کمی جیسے فیصلے تیل کی منڈی کا کنٹرول ہاتھ میں لینے کے لیے کیے جانے والے اقدام سے اقتصادی خودکشی کے مترادف ہیں۔ شروع میں بیان کی جانے والی کہانی میں حسد کے نتیجے میں اس امیر شخص نے اپنے آپ کو قتل ہونے پر تیار کرلیا تھا اسکے اس عمل کے پیچھے شیطانی وسوسہ تھا لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے اس اقدام کے پیچھے امریکہ ہے جسے امام خمینی رح نے کئی سال پہلے بڑے شیطان سے تعبیر کیا تھا۔