الوقت- گذشتہ پیر کے دن سے افغان سکیورٹی فورسز نے طالبان سے قندوز کی واپسی کے لئے آپریشنز شروع کئے ہیں جس مین انہین کامیابی نصیب ہوئی ہے، لیکن اتوار کو طالبان کے ہاتھوں قندوز پر ہونے والے قبضے سے، مقامی حکام کے اس سازش میں ملوث ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان سینیٹرز کا کہنا ہے کہ مقامی رہنماوں نے حملہ آوروں کے بارے میں غفلت سے کام لیا ہے، اوراس شہر کو اُنہیں خود پیش کیا ہے۔ بعض افغان ماہرین کی نظر یہ ہے کہ قندوز پر قبضہ، مغربی ممالک کی جانب سے شام میں روسی فوج کی موجودگی کا جواب ہے۔ ان شرائط میں کہ جب سب کی توجہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی طرف ہے، طالبان عسکریت پسندوں نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹو کی غیر موجودگی کوغنیمت جانتے ہوئے قندوز پر حملہ کر کے اس ملک کے شمال کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ طالبان کے اس شہر پر قبضے کے بعد افغانستان کے دیگر مناطق سے سکیورٹی فورسز کو اس علاقے میں تعینات کیا گیا، تاکہ حملہ آوروں کوعقب نشینن پر مجبور کرکے دوبارہ اس شہر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ منگل کے روز، قندوز پولیس کے ترجمان سید سرور حسینی نے کہا کہ " فوج اور سکیورٹی فورسز نے اس شہر میں مختلف مقامات پر پیش قدمی کی ہے، کابل اور مزار شریف سے بڑی تعداد میں امدادی فورسز بھی ان سے ملحق ہو گئی ہیں۔" حسینی نے مزید کہا کہ " اس شہرکو واپس لینے کے لئے افغان فورسز نے آپریشنز کا آغاز کر دیا ہے اورافغان فورسز کی پیش قدمی سے قندوز شہر کی پولیس چھاونی اور جیل بھی افغان سکیورٹی فورسز کے قبضے میں آگئی ہے۔" طالبان نے پیر کے روز اچانک حملہ کر کے اس شہر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا، اور اس شہر کی تمام سرکاری عمارتوں، حتٰی اقوام متحدہ کے دفترپر بھہ قبضہ کر لیا۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، حسینی نے اپنے اس بیان سے کہ "افغانی کمانڈوز شدید جنگ کر رہے ہیں" طالبان کی جانب سے ہونے والی عقب نشینی کی خبروں کی تردید کر دی اور کہا کہ " اس شہر میں اتنی شدید جنگ جاری ہے کہ جس کی اس پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔" پولیس کے ترجمان نے واضح کیا کہ " طالبان عسکریت پسند اس شہر میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور سرکاری فورسز سے نبرد آزما ہیں۔"
قندوز کا طالبان سے سودا کیا گیا ہے
قندوز شہر پرطالبان کے صرف چند سو حملہ آوروں کے ساتھ اچانک قبضے، اورمقامی رہنماوں کے اس سازش میں ملوث ہونے کے باوجود انہی رہنماوں کے اس معاملے پرعدم ردعمل نے اس نظریئے کو تقویت پہنچائی ہے۔ افغان سینیٹ کے نمائندگان نے مقامی رہنماوں کو شہر پر قبضے کا باعث قرار دیا ہے، اور حکومت سے تقاضا کیا ہے کہ مقامی رہنماوں کی اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کی بناء پر فوجی عدالت انہیں پھانسی کی سزا دے۔ افغان خبر رساں ادارے جمہور کے مطابق، افغانی سینیٹ کے صدر، فضل ہادی مسلم یار نے قندوز کے حادثہ کے بارے میں کہا ہے کہ " قندوز کا حادثہ دردناک ہے، اس شہر کے لوگوں پر بہت برا وقت آیا ہے، انہوں نے کہا کہ سینیٹ کا تقاضا یہ ہے کہ گورنر، سکیورٹی حکام، سکیورٹی فورسز کے سربراہ اور بریگیڈئیر کمانڈر کا فرض ہے کہ ان رہنماوں کو فوجی عدالت میں سخت سے سخت سزا دی جائے"۔ مسلم یار نے مزید کہا کہ، "قندوز کے مقامی رہنما افغانستان کے سیاسی نظام کی بدنامی کا باعث بنے ہیں اور یہ بات ملک کے اعلٰی حکام کے لئے بھی شرمندگی کا باعث ہے کہ جو اس بدنامی کی روک تھام میں ناکام رہے۔ سینیٹ کے ایک اور ممبرعبدالرحیم حسین یار کا کہنا تھا کہ، " قندوز میں انسانی تباہی ہوئی ہے اور اس تباہی کے ذمہ دار اس شہر کے مقامی رہنما ہیں، اس لئے انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جانی چاہیئے"۔ حتٰی بعض افغان ذرائع کی نظر یہ ہے کہ افغانسان کی ناامنی میں پاک فوج کا بہت اہم رول ہے، اورافغان داعشی گروہ میں پاکستانی افراد بھی موجود ہیں۔ قندوز پر قبضہ بھی عراق میں موصل پر قبضے کی مانند ہے، کہ داعشی دہشتگردوں نے بغیر کسی مقابلے کے اس پر قبضہ کیا، اور مقامی سکیورٹی حکام کی خیانت سبب بنی کہ داعش کے تکفیری دہشتگرد اپنی پیش قدمی کو جاری رکھیں۔ افغان فوج اور سکیورٹی حکام کے توسط، فوجی ذخائر کی واپسی اور ۵۰۰ قیدیوں کی رہائی پر طالبان کی جانب سے وسیع حملوں کے احتمال میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
مغربی ممالک کا روس کو جواب:
بعض ماہرین معتقد ہیں کہ طالبان کے ان حملوں کی پلاننگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ہوئی ہے۔ ایک افغانی ماہر نے خبر رساں ادارے جمہور میں اپنے مقالے میں طالبان کے اس حملے کو امریکی سازش قرار دیتے ہوئے لکھا ہے، " شام میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں، اس ملک میں روس کی مداخلت، اور بشار اسد کی حکومت کی مدد کے لئے روسی افواج کی تعیناتی پر یہ مغربی ممالک کی جانب سے طاقت کی نمائش اور روس کے اس اقدام پر ردعمل کا اظہار ہے، اس طرح سے وہ روس پر دباو ڈالنا چاہتا ہے۔" امریکہ نے ماسکو کے ساتھ کشیدگی کی بنا پرمشرق وسطٰی سے سنٹرل ایشیا میں دہشتگردوں کو منتقل کر کے، روس کی ہمسایہ سرحدوں کو ناامن کیا ہے، گویا اپنی جانب سے وہ اپنے اس اقدام سے روس پر دباو ڈالنا چاہتا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر روس کی طاقت کو کم کرنا چاہتا ہے، یہ تقریباً وہی یوکرائن والی صورتحال ہے۔ خبر رساں ادارہ جمہور، طالبان کے قندوز پر حملے کو ان کی جانب سے طاقت کی نمائش جانتے ہوئے لکھتا ہے کہ، " اینٹیلی جنس ایجنسیوں نے چیف ایگزیکٹو کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بڑی ڈیل میں، نظام کے اندر اور نظام کے باہر مضبوط پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ساتھ افغانستان میں قیام صلح کے لئے ہونے والے مذاکرات میں طالبان کے کردار کو نمایاں کر دیا ہے اوربین الاقوامی برادری کو دکھا دیا ہے کہ طالبان ابھی بھی طاقتور ہیں اور حتٰی اس ملک کے شمال میں واقع اہم شہروں پر قبضہ کرنے کی توانائی رکھتے ہیں۔
غزنی پر حملے کو ناکام بنا دیا گیا
طالبان نے قندوز پر حملے کے بعد افغانستان کے دوسرے شہروں پر بھی حملہ کیا جسے افغان نیشنل آرمی نے جوابی کارروائی سے ناکام بنا دیا۔ سکیورٹی حکام نے، طالبان کے، غزنی شہر پر قبضے کے بارے میں خبردار کیا تھا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ اب یہ خطرہ ٹل گیا ہے۔ خبر رساں ادارے صدائے افغان (اوا) کی رپورٹ کے مطابق غزنی میں سینئر کمانڈر کا کہنا ہے کہ " طالبان نے غزنی پر قندوز اور ہلمند سے بھی بڑے حملے کئے، اوران کا مقصد غزنی پر قبضہ کرنا تھا، لیکن نیشنل آرمی کی فوری جوابی کارروائی نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔" جنرل امیر محمد نے کہا، " طالبان کا منصوبہ، غزنی پر اپنا سفید پرچم نصب کرنے کا تھا لیکن "اے این اے" کے سنگین ردعمل کی وجہ سے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔