الوقت- گذشتہ دنوں شام کے بحران اور اس کے حل کے حوالے سے واشنگٹن کے ظاہری موقف میں کچھ تبدیلی دیکھنے میں آئی، شام کے بحران کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی طرف سے دیئے گئے بظاہر نرم موقف کے باوجود "واشنگٹن" ابھی بھی بشاراسد پر الزام لگانے سے باز نہیں آیا اورتہران اور ماسکو کواس بات پرمورد الزام ٹہرا رہا ہے کہ وہ بشار اسد کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لئے مطلوبہ دباو نہیں ڈال رہے۔ واشنگٹن اورمغربی ممالک کی کوشش ہے کہ شام کے بحران اور اس کے سیاسی حل کی تلاش کے بہانے رائے عامہ کو فریب دیں، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، جو وہ کہہ رہا ہے، کیونکہ امریکیوں کے اعتراف کے مطابق، شام میں بحران پیدا کرنے والے دہشتگرد گروہوں کو وجود میں لانے والا خود امریکہ ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل"ویسلے کلارک" نے یہ راز فاش کیا کہ داعش کو وجود میں لانے والے امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں۔
برطانوی انسداد دہشتگری یونٹ کے ایک افسر "چارلز شو بردچ" کا کہنا ہے کہ برطانوی اور امریکی انٹیلی جنس اداروں نے کچھ خلیجی ممالک کو دہشتگردوں پر سرمایہ گذاری اور انہیں مسلح کرنے پر اکسایا ہے، جن میں داعش سرفہرست ہے، یہاں تک کہ واشنگٹن کے حالیہ لچک آمیز بیانات کے باوجود امریکہ شام میں ابھی بھی دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، اس طرح سے کہ گذشتہ منگل ۲۲ ستمبر کوامریکی مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹر کی جانب سے کہا گیا کہ ۷۰(امریکہ کی نظر میں معتدل لیکن شامی حکومت مخالف) امریکی تربیت یافتہ عسکریت پسند ترکی کے راستے شام میں داخل ہوئے ہیں، اور یہ ایسا موضوع ہے جو امریکہ کے حالیہ ظاہری موقف کے بالکل برعکس ہے۔ امریکہ شام کے بارے میں جتنا بھی اپنے موقف کو مثبت رنگ دے لیکن امریکی حکام کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے ان کے موقف پر بداعتمادی موجود رہے گی۔
اس کے علاوہ امریکی حکام اپنے بیانات میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ "بشار اسد" مذاکرات اور سیاسی حل نہیں چاہتا، لیکن امریکیوں کا یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے، کیونکہ بحران کے آغاز سے ہی شامی صدر سیاسی راہِ حل چاہتے تھے، انہوں نے ملک کے بنیادی قانون میں تبدیلی کر کے ایسی حکومت تشکیل دی، جس نے قوم پرست حزب اختلاف کو بھی ساتھ شامل کرلیا، اس کے علاوہ انہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ شام کے بحران کا حل سیاسی اور شامی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیئے، لیکن یہ بات امریکی مزاج کے ساتھ سازگار نہیں، کیونکہ ان کے نزدیک اس بحران کا واحد حل بشار اسد کا حکومت سے برکنار ہونا تھا۔
امریکہ کا یہ دعوی کہ، ماسکو اور تہران کے ذریعے بشار اسد پر دباو ڈال کے انہیں مذاکرات کے لئے مجبور کریں گے، بھی ایک طرح سے عوامی رائے کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ اپنی اس بات سے واشنگٹن لوگوں پر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ روس اور تہران، شام کے بحران کے سایسی حل کے لئے کوشش نہیں کر رہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تہران اور ماسکو کی نظر میں شام کے بحران کا واحد حل گفتگو اورمذاکرات ہیں اوران مذاکرات میں طرفین صرف اور صرف شامی ہوں۔ شام کے بحران کے سیاسی حل کے لئے روس، ایران اور شامی حکومت کی کوششوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ امریکہ اور مغربی ممالک کی خواہشات پر عمل کرتے ہوئے ان کے مطلوبہ راہ حل کو قبول کر لیں کیونکہ امریکہ کے نزدیک شام کے بحران کا واحد سیاسی حل بشار اسد کو حکومت سے برکنار کرنا ہے، جس نے شام کے صدارتی انتخابات میں بھاری اکثریت سے اپنے مخالفین کو شکست دی اور فتحیاب ہوا جبکہ ایران اور روس اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ شامی عوام کو اپنی سرنوشت اور اپنے لئے صدر کے انتخاب کا حق حاصل ہونا چاہیئے۔
شام کے بحران کے سلسلے میں امریکہ اور مغربی ممالک کے موقف میں بظاہر تبدیلی قابل اعتماد نہیں، کیونکہ یہ ابھی بھی دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور گذشتہ چند سالوں میں شام کے بحران کے حل کے لئے ہونے والی تمام کوششوں کو شکست سے دچار کرنے میں بھی امریکہ اور مغربی ممالک کا اہم کردار رہا ہے۔ اسی بناء پر بے گناہ شامیوں کے بہائے گئے خون اور شام کے بحران کے حل کے لئے تہران اور ماسکو کی جانب سے ہونے والی پر خلوص کوششوں میں سب سے زیادہ روکاوٹیں کھڑی کرنے کا ذمہ دار امریکہ ہے، لہذا امریکہ اور مغربی ممالک کے موقف میں آنے والی حالیہ تبدیلی شام کے بحران کے پرامن حل کے لئے نہیں، بلکہ یہ تبدیلی ان کے پروگرام میں تبدیلی کا اظہار ہے۔