الوقت- پاکستان کے معروف اسکالر اور پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان عمر ریاض عباسی سے اپنے انٹر ویو میں سعودی حکومت کو اس واقعہ کا ذمہ دار قراردیا ہے اور اس واقعے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات پر زور دیا ہے۔عمر ریاض عباسی نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ1960 سے لیکر اب تک کئی واقعات ہوچکے ہیں جس میں سینکڑوں حجاج شہید ہوئے ہیں لیکن آل سعود کے طور اطوار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ منی کے واقعے پر انکے کیا تاثرات ہین تو انہوں نے آل سعود کے انتظامات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا پہلے کرین کا واقعہ پیش آیا اسکے بعد منی کا یہ سانحہ رونما ہوا آل سعود نے مسلمانوں کو دنیا بھر کے سامنے تماشا بنا دیا دنیا کیا سوچتی ہوگی کہ پوری دنیا کے مسلماں اپنی اہم ترین عبادت کے لئے جمع ہوتے ہیں اور انکے انتظامات کا یہ حال ہوتا ہے کہ کبھی تعمیری کام ہونے کی وجہ سے کرین گر جاتی ہے اورکبھی پرٹوکول کی وجہ سے راستے بند کرکے ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔
عمر ریاض عباسی نے اس بات کو سختی سے رد کیا کہ واقعہ بھگدڑ کی وجہ سے پیش آیا ان کا کہنا تھا اگرانتظامات صحیح ہوتے اور راستوں کو بند نہ کیا جاتا تو حادثہ ہرگز پیش نہ آتا۔انہوں نے کرین حادثے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہااس واقعہ کے بعد مکے کے گورنر نے جو بیان دیا تھا اور تحقیق کرنے کی بات تھی اس کا کیا ہوا ۔آل سعود نے اپنے ملک میں ایسا نظام مسلط کیا ہوا ہے کہ کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے یہ حرمین شریفین کا کروڑوں کا ریونیو لیتے ہین لیکن اسے اپنی عیاشیوں میں اڑا دیتے ہیں اورحجاج کی ابتدائی ضرورتوں کو بھی پورا نہیں کیا جاتا۔کبھی خیام میں آگ لگ جاتی ہے اور کبھی کرین گر چاتی ہے کیا اتنے بڑے پروگرام کے دوران تعمیراتی کا م انجام دینا عاقلانہ کام ہے
۔عمرریاض عباسی نے اس سوال کے جواب میں کہ اس واقعے کا مسلمانوں کی طرف سے کیا ردعمل ہونا چاہیے کہا۔آل سعود کے ذمہ داروں کو کٹہرے مین لانا چاہیے اسلامی ممالک پر مشتمل ایک غیر جانبدار عالمی کمشن بنا کر اس واقعے کی تحقیق ہونا چاہیے اورذمہ دار افراد کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔جن ممالک کے حاجی شہید ہوئے ہین ان ممالک کے حکام کو سعودی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے شہدا کے پسماندگان کا ازالہ ہونا چاہیے اور حج کے انتظامات میں کوتاہی برتنے والوں کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔
پاکستان کے معروف اسکالر اور پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان عمر ریاض عباسی نے مستقبل میں اسطرح کےواقعات کی روک تھام کے حوالے سے کہا کہ سب سے پہلے تو الوقت- حج کے انتظامات کے لئے ایک مرکزی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں مسلمانوں کے کسی عالمی ادارے مثلا او آیی سی یا کسی اور ادارے کے منتخب شدہ افراد شامل ہوں۔اسکے علاوہ انتظامات کے حوالے سے ایک باقاعدہ فریم ورک ہونا چاہیے جس میں عالم اسلام کی رائے شامل ہو تیسری اہم بات یہ ہے کہ حج سے حاصل ہونے والی آمدنی کا باقاعدہ آڈٹ ہونا چاہیے اور اس بات کا یقین حاصل کرنا چاہیے کہ اس سے حاصل ہونے والی امدنی کہیں شہزادوں کی عیاشیوں یا القاعدہ،داعش اور انتہا پسند وہابیوں کو پروان چڑھانے پر تو خرچ نہیں ہورہی ہے ۔