الوقت- سعودی عرب نے اب اخوان المسلمین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور یہ سوچ رہا ہے کہ وہ مصر کی اس اسلامی پارٹی کی حمایت کرکے یمن کے دلدل سے نکل سکتا ہے اور خود کو نجات دلاسکتا ہے۔
اخوان المسلمین کے تعلق سے آل سعود کی پالیسیوں میں تبدیلی۔
آل سعود کی حکومت اور مصری فوج کے ہاتھوں نہایت تلخ تجربے اٹھانے کے بعد حالات نے کچھ ایسا رخ بدلا ہے کہ سعودی عرب ایک بار پھر ہر چند عارضی ٹیکنیکل طریقے سے ہی کیوں نہ ہو اخوان المسلمین کے تعلق سے اپنی پالیسیوں میں اصلاح کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ان واقعات میں ایک، طرح طرح کی سازشوں کے خلاف شام کی حکومت کی ثابت قدمی اور پائداری ہے۔ شام کی پائداری کے نتیجے میں آل سعود کی حکومت کے سمجھ میں آگيا ہے کہ صدر بشار اسد کی حکومت کو کچھ دنوں میں گرانے کا اس کاخواب محض ایک خيال باطل تھا۔ سعودی عرب نے بشار اسد کےخلاف شام کے اخوان المسلمین کو اپنے پرچم تلے جمع کرکے شام کی حکومت کے خلاف اقدامات کرنے کی چال چلی تھی۔ اسی وجہ سے آل سعود نے ترکی اور قطر سے نزدیک ہونے کی کوشش کی جو اخوان المسلمین کے حامی ہیں اور ان سے بشار اسد کی حکومت سرنگون کرنے میں مدد لے سکے۔
دمشق کے مقابل ریاض قطر اور انقرہ کی شکست
سعودی عرب، قطر اور انقرہ کے مذموم مثلث نے شام کے خلاف جو اقدامات کئے تھے وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوگئے اور اس مثلث کو ہر محاذ پر شکست ہوئي۔ اس کے علاوہ اخوان المسلمین کی فوجی شاخ جسے آزاد فوج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ بھی حکومت دمشق کے مقابل بری طرح ناکام رہی ہے اور گذشتہ پانچ برس سے جاری دہشتگردانہ اقدامات سے نہتے عوام کا قتل عام کرنے کے علاوہ کوئي اور کام نہیں کرسکی ہے۔
یمن کے دلدل میں سعودی عرب کا ہاتھ پیر مارنا
سعودی عرب بری طرح یمن کے دلدل میں پھنس چکا ہے اور روز بروز اس دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے اورآج کوئي نہیں ہے جو آل سعود کی حکومت کو یمن میں ہلاکت سے نجات دلائے۔ یاد رہے مصر نے سب سے بڑے عرب ملک کی حیثیت سے یمن میں سعودی عرب کی شکست خوردہ فوج کی حمایت کے لئے اپنی بری فوج بھیجنے کی مخالفت کی ہے۔
اخوان المسلمین سے دوستی کرنے کی سعودی عرب کی مشکوک کوششیں
ہرطرف سے شکست کھانے کے بعد سعودی عرب نے مصر کی تنظیم اخوان المسلمین سے دوستی کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں البتہ اسے یہ بھی خدشہ لاحق ہے کہ اس سے عبدالفتاخ سیسی کےساتھ اس کے تعلقات خراب ہوجائيں گے تاہم دوسری طرف اسے یہ بھی امید ہےکہ وہ مصری اخوانیوں سے یمن کے اخوانیوں کی پوزیشن کو تقویت پہنچا کر یمنی فوج اور تحریک انصاراللہ سے مقابلہ کرسکے گا۔ سعودی عرب کی حکومت ایسے حالات میں اخوان المسلمین سے دوستی کررہی ہے کہ آل سعود کے کرائے کے فوجی جو اس نے مختلف ملکون سے جمع کئے ہیں یمن کی فوج اور تحریک انصاراللہ کے ہاتھوں شکست فاش سے دوچار ہوچکے ہیں۔ واضح رہے یمن کے نہتے عوام پر آل سعود اور اسکے پٹھوؤں کی اندھی بمباری کو چھے مہینے ہونے والے ہیں لیکن اس کے باوجود ساری دنیا کھ رہی ہے کہ یمن میں آل سعود کو شکست ہوئي ہے۔
اخوان المسلمین کی حمایت حاصل کرنے میں آل سعود ناکام۔
اس مرتبہ یہ امر بہت بعید لگ رہا ہےکہ آل سعود اخوان المسلمین کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگي۔ اخوان المسلمین نے سعودی عرب کے ہمراہ ہونے سے انکار کردیا ہے جس کے نتیجے میں آل سعود یمن میں اخوان المسلمین کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اسے اپنی فوج کو بچانے میں بھی ناکامی ہوگي۔ ان مسائل کے علاوہ یہ کہنا چاہیے کہ سعودی عرب کی جانب سے اخوان المسلمین کی حمایت کے اقدامات سے عبدالفتاح سیسی کی حکومت چراغ پا ہے۔البتہ آل سعود کے اس اقدام سے نہ صرف مصر بلکہ متحدہ عرب امارات اور کویت سمیت بہت سے عرب ممالک ناراض ہوجائيں گے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کے بادشاہ ملک سلیمان نے کچھ دنوں قبل تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ خالد مشعل سے ملاقات کی تھی۔ سعودی عرب کے ہاتھ دسیوں ہزار بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگے ہیں اور یمن میں بھی اسکی بربریت سب پر آشکار ہے لھذا اس بات کا امکان کم ہے کہ اخوان المسلمین سعودی عرب کی حمایت کرے اور اسکی جانب سے دوستی کی پیش کش قبول کرے۔
یاد رہے اگر سعودی عرب نے اخوان المسلمین کو اپنا حامی بنالیا تو یہ اس تنظیم کے لئے بڑا مہنگا سودا ہوگا کیونکہ اخوان المسلمین عالم اسلام میں اپنی پوزیشن کھو بیٹھے گي۔یاد رہے مرحوم حسن البنا کے زمانے سے اخوان المسلمین ملت فلسطین اور دیگر مظلوم قوموں کےحق میں شرافتمندانہ موقف اختیار کرتی آئي ہے البتہ محمد مرسی کے زمانے میں شام کے تعلق سے اس کاموقف ایک استثنی شمار ہوتا ہے۔ عالم اسلام میں آل سعود کی خونریز پالیسیوں اور مصر میں آل سعود کی چالوں کے پیش نظر اخوان المسلمین کے لئے یہی کہاجاسکتا ہےکہ اسے اب دوبارہ سعودی عرب کی سازشوں میں گرفتار نہیں ہونا چاہیے۔