الوقت- ترکی اور سعودی عرب نے ایک ایسی غلط جنگ شروع کی ہے جس سے علاقے میں خاصی مشکلات کھڑی ہوگئي ہیں۔ سعودی عرب نے بغیر کسی فوجی تجربے اور حکمت عملی کے یمن پر حملہ کردیا ہے۔ سعودی عرب درحقیقت ایک دلدل میں پھنس گيا ہے۔
شام اور داعش کی جنگ میں ترکی نے ایک تیر سے تین نشان مارنے کی چال چلی تھی۔سب سے پہلےترکی نے کوشش کی کہ وہ ایک ذمہ دار ملک ہے اور اس نے داعش کے خلاف جنگ میں براہ راست مداخلت کئے بغیر دسیوں ہزار شامی آوارہ وطنوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ترکی نے اس اقدام سے عالمی برادری کی ہمدردی جیتنے کی کوشش کی تھی اور بڑی کامیابی سے نیٹو میں مظلوم نمائي کرتا رہا۔ دویم یہ کہ ترکی ایسی جنگ میں شامل ہونا نہیں چاہتا تھا جس میں کئي فریق شامل ہیں اور محاذوں کا تعین ابھی تک نہیں ہوا ہے۔ ترکی یہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ اسد اور کرد جب تک لڑ سکتے ہیں داعش کے خلاف لڑتے رہیں اور خود ایک کنارے بیٹھے تماشہ دیکھتا رہے اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑاتا رہے۔ تیسرے یہ کہ ترکی داعش کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں ہونے والی کوششوں کے سہارے نیز امریکہ کی حمایت سے اپنی جنوبی سرحدوں کی حفاظت کرتا رہے۔ ترکی کی یہ تینوں سیاسی چالیں ناکام ہوگئیں۔ پہلے تو یہ کہ ترکی کو یہ توقع نہیں تھی کہ داعش کوبانی میں شکست کھانے کے بعد کردوں کا ترکی کے اندر سوروچ تک پیچھا کرے گا۔ شہر سوروچ میں داعش کے بم دھماکے سے ترک حکومت پر داخلی سطح پر دباؤ بڑھنے لگا۔ دوسرے یہ کہ ترکی نے یہ اندازے غلط لگائے تھے کہ امریکہ اسکی جنوبی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے ہرچند وہاں پر داعش کے تشدد میں اضافہ ہورہا تھا۔ تیسرے یہ کہ ترکی کا سب سے بڑا غلط اندازہ یہ تھا کہ انقرہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ داعش کے خلاف جنگ کو کنٹرول کرسکتا ہے اور اس جنگ کے ساتھ ساتھ اپنے دیرینہ دشمن یعنی عراق و شام کے کردوں کے خلاف بھی جنگ شروع کرسکتا ہے۔ یہ سادہ لوحی پر مبنی اسٹراٹیجی تھی کہ ایک ہی وقت میں ایک جنگ کو کنٹرول کرکے دوسرے دشمن کے خلاف دوسرا محاذ کھول دیا جائے جبکہ کسی ملک میں یہ طاقت نہیں ہےکہ ایک وقت میں دو محاذوں پر عسکریت پسندوں کی شروع کی ہوئي جنگ میں لڑ سکے۔ ترکی کے خلاف داعش اور پی کےکے گروپ بر سرپیکار ہیں اور دونوں اپنے اپنے اھداف کے حصول کے لئے نہایت پر عزم اور مصمم ہیں۔ اس کے علاوہ شام کے کرد بھی الگ محاذ کے مالک ہیں۔ سوروچ شہر میں بم دھماکے کے بعد سے ترکی کے بہت سے فوجی مختلف حملوں میں مارے گئے ہیں۔ بہر صورت ترکی نے ایسا کھیل شروع کردیا ہے کہ وہ خود نہیں جانتا کہ اس کے سامنے کیا آنے والا ہے۔ اسی طرح کے صورتحال میں سعودی عرب بھی گرفتار ہوتا نظرآتا ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں ایران کے اثر ورسوخ کے بارے میں غلط اندازے لگائے تھے۔ آل سعود کی حکومت ایٹمی مسئلے میں امریکہ کے ایران کے قریب آنے کی وجہ سے بوکھلا گئي ہے۔ ریاض کا یہ ماننا ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیاں ایٹمی معاہدے سے ایران کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اسی وجہ سے ریاض ایران اور پانج جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کو اچھی نظر نہيں دیکھتا۔ ان غلط اندازوں کے نتیجے میں سعودی عرب یمن پر حملے کی غلطی کربیٹھا۔ سعودی عرب نے بغیر کسی فوجی تجربے اور بغیر کسی واضح ہدف کے اور بغیر کسی واضح اسٹراٹیجی کے یمن پر حملے کرنا شروع کردئے اور یمن کی جنگ سے وہ کیسے باہر نکلے گا اس کے بارے میں تو ذرا بھی فکر نہیں کی نتیجے میں آج سعودی عرب اپنے ہی بنائے ہوئے دلدل میں پھنستا جارہا ہے۔
اگر سعودی عرب کا ھدف حوثیوں کو شکست دیناتھا تو اس صورت میں اسے یمن پر زمینی حملہ کرنا چاہیے تھا۔ اگر سعودی عرب یمن پر زمینی حملے کرتا تو حوثی اپنی ٹیکٹیک بدل کر گوریلا جنگ شروع کردیتے جس کے نتیجے میں جنگ کا نقشہ ہی بدل جاتا اور نہ جانے آل سعود کی فوج کا کیا حال بنتا۔ دوسری طرف سعودی عرب میں داعش شیعہ مسلمانوں پر حملے کررہی ہے۔ ان حملوں سے سعودی عرب میں سماج کے حصے بخرے ہورہے ہیں۔ ان تمام حقائق کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہےکہ ترکی اور سعودی عرب کی سمجھ میں آگيا ہے کہ فضائي حملوں محدود دائرے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔
اس وقت اور عراق و شام کے حالات کے مزید بحرانی ہونے سے امریکہ پر دباؤ بڑھ گيا ہے۔ امریکہ سیکورٹی کے لحاظ سے ترکی اور سعودی عرب پر ان کی غلط جنگ کو روکنے کے لئے دباؤ ڈال سکتا ہے اور ان کی افواج کا رخ بڑے دشمن یعنی داعش کی طرف موڑ سکتا ہے۔ البتہ اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ اب ترکی اور سعودی عرب امریکہ پر بھرپور طرح سے اعتماد نہیں کرتے اور نہ ہی امریکہ کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب کی جانب سے غلط جنگ کے جاری رکھنے پر اصرار سے علاقے کے عوام کو بے پناہ نقصانات ہونگے۔