الوقت کی رپورٹ کے مطابق پی ایل او کے اعلی عہدیدار نبیل شعث نے جو خود بھی ساز باز مذاکراتی عمل کے ایک رکن ہیں کہا ہے کہ اوسلو معاہدے کو بائيس برس گزرنے کے باوجود اسرائيل نے اس پرعمل نہیں کیا ہے جبکہ فلسطینی فریق اس معاہدے پر بدستور کار بند ہے۔
اوسلو معاہدہ کی بدولت ہی محدود خود مختار فلسطینی انتظامیہ ایک عارضی ادارے کی حیثیت سے وجود میں آئي۔ اس وقت یہ طے پایا تھا کہ اوسلو معاہدہ صرف پانچ سال کے لئے معتبر رہے گا اور اس کے بعد ایک دائمی معاہدہ اس کی جگہ لے لے گا۔ دائمی معاہدے میں بیت المقدس کی صورتحال، فلسطینی پناہ گزینوں کامسئلہ، یہودی کالونیاں، اور سرحدوں کا تعین نیز سیکورٹی مسائل زیر غور آنے والے تھے۔
بلاشبہ ساز باز مذاکرات کے باوجود صیہونی حکومت کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ صیہونی حکومت کی جانب سے توسیع پسندی اور تسلط پسندی پر اصرار ہی ساز باز مذاکرات میں تعطل آنے اور فلسطینیوں کو اس سازش کے شدید نقصانات پہنچنے کا بنیادی سبب ہے۔ ساز باز مذاکرات کو دوبارہ شروع کرانے کی کوششیں ایسے حالات میں شروع ہورہی ہیں کہ وہ اسباب جو ان مذاکرات کو معطل کرنے کے ذمہ دار ہیں صیہونی حکومت کی جانب سے بدستور جاری ہیں۔
یاد رہے صیہونی حکومت کی جانب سے یہودی کالونیوں کی تعمیر اور اس کی غیر ذمہ دارانہ کارروائياں، فلسطین کی آزاد ریاست کی تشکیل نیز فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی مخالفت جیسے مسائل بدستور موجود ہیں۔