الوقت- ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نےگذشتہ دنوں چین کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے چینی وزیراعظم سمیت اعلی حکام سے ملاقات کی۔ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس ملاقات کے دوران ایران اور چین کے گہرے اسٹریٹیجک تعلقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ چین جامع مشترکہ ایکش پلان پر عمل درآمد میں بھی اپنا مثبت کردار جاری رکھے گا- محمد جواد ظریف نے مختلف میدانوں میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے فروغ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہراہ ریشم کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں فروغ آ سکتا ہے - ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، چین کی انرجی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ایک قابل اعتماد شریک ہو سکتا ہے کہا کہ جامع مشترکہ ایکش پلان پر عمل درآمد کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں فروغ آئے گا- چین کے وزیراعظم لی کچیانگ نے ایران کے ایٹمی مسئلے کے حل کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس معاہدے پر پوری طرح عمل ہو گا اور تمام فریق معاہدے کی پابندی کریں گے- لی کچیانگ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ ایٹمی معاہدہ، مشرق وسطی میں مزید استحکام پیدا کرنے نیز بین الاقوامی مسائل کے حل میں اہم کردار کاحامل ہے- انھوں نے کہا کہ ایران اور چین کے اقتصاد کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور دونوں ملک مختلف میدانوں میں مناسب تعاون کر سکتے ہیں -
چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملاقات کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نےمشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے علاقے اور امریکہ میں جامع مشترکہ ایکشن پلان کے مخالفین سے مطالبہ کیا کہ وہ مسائل کے پرامن حل کے لئے عالمی برادری کے موقف کا احترام کریں- ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ افسوس امریکہ اور علاقے میں کچھ گروہ، بالخصوص صیہونی حکومت اپنے مفادات کو، جنگ اور کشیدگی میں دیکھتی ہے، انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ، دنیا کے اہم مسائل کے پرامن حل کے لئے عالمی برادری کے مطالبات کا احترام کرے گا- جواد ظریف نے اراک کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کی تعمیرنو اور نظرثانی پروگرام پر عمل درآمد میں چین کے تعمیری کردار کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں مثبت رویہ جاری رہنا چاہئے اور اسے دوسرے شعبوں میں بھی بڑے پیمانے پر تعاون کی تشویق و ترغیب کا باعث ہونا چاہئے- محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایران ، چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور دونوں ممالک مشترکہ موقف کے لحاظ سے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں- اس پریس کانفرنس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے علاقے کے بحران کے حل میں ایران کے کردار کو بنیادی اور نہایت تعمیری قرار دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودگی کے بغیر مشرق وسطی کے بحران کا حل ناممکن ہے- وانگ یی نے مزید کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان علاقے ، مشرق وسطی اور اس سے متعلق بہت سے میدانوں میں موثر واقع ہو گا اور اگر تمام فریق ، جامع مشترکہ ایکشن پلان کے سلسلے میں اپنے وعدوں پر عمل کریں تو معاہدے کے لئے ماحول مزید بہتر اور علاقائی تنازعات کے حل کے لئے مثبت ہو گا ۔اسلامی جمہوریہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے کے بعد محمد جواد ظریف کا یہ پہلا دورہ چین تھا۔ ایران اور چین کے درمیاں سفارتی تعلقات قائم ہوئے چار دہائيوں سے زیادہ کا عرصہ گذر رہا ہے۔ جس چیز نے ایران اور چین کے تعلقات کو پائدار اورمستحکم بنایا ہے وہ دونوں طرف سے ایک دوسرے کے قومی اقتدار کا احترام اور ایک دوسرے کے امور میں عدم مداخلت ہے۔ اس کے علاوہ خارجہ پالیسیوں میں خودمختاری اور باہمی مفادات کے مطابق تعاون سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات میں استحکام آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایران اور چین کے کرداروں کو مغربی اور مشرقی ایشیا میں دو اہم اور موثر ملکوں کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے جن کے دیرینہ تعلقات کی تاریخ شاہ راہ ابریشم کی تاریخ جتنی پرانی ہے البتہ دونوں ملکون کے سیاسی اور اقتصادی تعلقات میں مغربی ملکوں کے دباؤ اور رکاوٹوں کی وجہ سے کچھ مسائل سامنے آتے رہے ہیں۔ اب جبکہ ایران پر سے پابندیاں ہٹادی گئي ہیں ایران اور چین کے تعلقات کو محض اقتصادی امور میں ہی محدود نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ نئے حالات میں نئے پیرا میٹرس کا اضافہ ہوا ہے۔ ایران اور چین اپنے دیرینہ سیاسی تعلقات کی بنا پر علاقائي اور عالمی مسائل کے بارے میں یکسان نظریات رکھتے ہیں اور یہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں موثر عنصر شمار ہوتا ہے۔ چین نے اقوا م متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے علاقائي اور عالمی مسائل میں نہ صرف زیادہ ذمہ داری کا ثبوت پیش کیا ہے بلکہ ان علاقوں میں بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے جن کا چین کی سکیورٹی اور مفادات سے براہ راست تعلق ہے۔ چین شنگھائي تعاون تنظیم کے رکن کی حیثیت سے علاقے کے ملکوں میں اتحاد پر زور دیتا اور اس مسئلے کو اس نے اپنی اسٹراٹیجیک پالیسیوں میں ترجیح دے رکھی ہے۔ ایران اور چین کی توانائیوں کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ممالک امن و صلح کی راہ میں علاقائي ملکوں کا اتحاد بنا سکتے ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد علاقے میں امن و سکیورٹی کو استحکام دینا ہوگا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کو ملانے والے علاقوں میں داعش کی موجودگي سے تشویش میں اضافہ ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں چین اپنی روایتی قدامت پسندی کے باوجود مغرب ایشیا میں نیا کردار ادا کرنے کو تیار ہوچکا ہے۔ ان حقائق اور تقاضوں کےپیش نظر ایران اور چین کا باہمی تعاون دونوں ملکوں کے لئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت ایران اور چین کے تعلقات میں تیزی سے توسیع آرہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ چین پانچ جمع ایک گروپ کا رکن ہونے کے ناطے ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے پر عمل درامد کے سلسلے میں بعض ذمہ داریوں کا حامل ہے، اسی بناپر چین کے وزیر خارجہ کی دعوت پر ایران کے وزیر خارجہ کا دورہ بیجنگ علاقے کے نہایت حساس حالات کے پیش نظراس تعاون کا جائزہ لینے اور سیاسی تعاون جاری رکھنے کا ایک اہم موقع تھا بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ چین ایران کے کلیدی کردار پر تاکید کرتا ہے اور ایران کے تعاون سے علاقے میں امن و استحکام قائم کرنے میں مزید کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں ایران اور چین سیاست، اقتصادیات اور سکیورٹی میدانوں میں مشترکہ خطروں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے تعلقات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔