الوقت- دہشتگردی کے خلاف جنگ یا مہم کی اصلاح پہلی بار امریکہ بہادر کی طرف سے عالمی میڈیا میں سامنے آئی بعد میں مختلف ممالک کو دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ قراردیکرامریکہ نے اپنا الو سیدھا کیا۔دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے پوری دنیا بالخصوص مسلمان ملکوں میں جو اودھم مچایا دنیا اس سے اچھی طرح باخبر ہے ۔زیادہ وقت نہیں گزرا کہ امریکہ کے اپنے حکام کی طرف سے ہی یہ باتیں سامنے آنا شروع ہوگئیں کہ القاعدہ کو فلاں مسئلہ کے لئے خلق کیا گیا تھا اور داعش کو منظر عام پر لانے کہ فلاں مقاصد تھے ان تمام اعترافات کے باوجود بڑی ڈھٹائی سے دہشتگردی کے خلاف اتحاد تشکیل دیتا ہے اور اپنے آپ کو دہشت گردی کا سب سے بڑا مخالف بھی قرار دیتاہے دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر خود اسلامی ممالک ہورہے ہیں۔حال ہی میں عراق کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف جنگ عالمی جنگ ہے اور عراق عالمی دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں فرنٹ لائن پر ہے۔عراقی وزیر خارجہ ابراہیم جعفری نے بدھ کو پیرس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کے دہشتگردوں کا تعلق اسی 80ملکوں سے ہے۔ ابراہیم جعفری نے کہا کہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لئے عالمی اتحاد بنانا اور عراق کی مدد کرنا صحیح اقدام تھا لیکن داعش کے خطروں کی وسعت کو دیکھتے ہوئے اس اتحاد کی کارکردگي نہ ہونےکے برابر ہے۔ انہوں نے مختلف ملکوں کے ماہرین کے ذریعے عراقی فوج کی ٹریننگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بغداد حکومت بیرونی افواج کو داعش کے مقابلے کے بہانے اپنی سرزمین پر رہنے کی اجازت نہیں دے گي۔ عراق کی فوج عوامی فورس کی مدد سے دوہزار چودہ سے دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف جنگ کررہی ہے۔ عراق میں داعشی اور بعثی فتنہ جون دوہزار چودہ میں داعش کے ہاتھوں شمالی صوبے نینوا کے شہر موصل پر قبضے سے شروع ہوا، اسی وقت سے عراق کی فوج اور عوامی فورسز دنیا کے سب سے خطرناک دہشتگرد گروہ کے خلاف فرنٹ لائن میں لڑ رہی ہیں۔ داعش کی دہشتگردی کہ مغرب کی پالیسیوں خاص کر دوہزار تیرہ میں عراق پر امریکہ کے قبضے کا نتیجہ ہے۔ اس دہشتگرد گروہ نے ہر طرح کی انسانیت سوز کاروائيوں کا ارتکاب کیا ہے اور وہ انسانیت سوز کاروائیوں کے لئے کسی حدو حدود کا قائل نہیں ہے۔ داعش کے دہشتگرد عناصر کا تعلق مختلف ملکوں بالخصوص یورپی ملکوں سے ہے۔ یہ گروہ شام اور عراق میں نہایت ہی گھناؤنے اور انسانیت سوز اقدامات انجام دے رہا ہے۔ مختلف گھناونے طریقوں سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا، نیز جلا کر مارنا اور اندھا دھند فائرنگ سے قتل کرنا شام و عراق میں داعش دہشتگرد گروہ کی مجرمانہ کاروائيوں کے کچھ نمونے ہیں۔ شام و عراق میں داعشی دہشتگردی دنیا کے لئے سنگين خطرے میں تبدیل ہوچکی ہے اور اس کے مقابل کسی بھی طرح سے غفلت کرنا ان ملکوں تک دہشتگردی پھیلانے کے مترادف ہوگا جہاں سے شام و عراق کے لئے دہشتگرد بھیجے جارہے ہیں۔
داعش دہشتگرد گروہ کے مقابل عراق کی فوج اور عوامی فورسز کی جانفشانی دہشتگردی سے مقابلے کرنے کی حقیقی مثال ہے۔ شام اور عراق کی افواج محدود وسائل و ذرایع لیکن پختہ عزم کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے دہشتگردی کی تمام شکلوں کا مقابلہ کررہی ہے۔ متفقہ پالیسی اور آپسی تعاون داعشی دہشتگردی کے مقابلے میں کامیاب ہونے کے لئے اولین ضرورت ہے۔ دہشتگردی کے مقابلے کے سلسلے میں موقع اور مفاد پرستی پر مبنی نگاہ ہی دہشتگرد گروہ داعش کے باقی رہنے کا بنیادی سبب ہے۔ ترکی ایسے عالم میں شام کے شمالی علاقوں میں داعشی دہشتگردی سے مقابلے کا دعوی کررہا ہے کہ داعش کے زخمی دہشتگردوں کا علاج ترکی کے اسپتالوں میں کیا جارہا ہے اور دیگر ملکوں سے آنے والے دہشتگرد شام و عراق جانے کے لئے سب سے پرامن راستہ ترکی کی سرحد کو ہی سمجھتے ہیں۔امتیازی رویوں سے داعش کے قاتل دہشتگردوں کی نابودی میں کوئي مدد نہیں ملے گي۔ داعشی دہشتگردی کی بیخ کنی کرنے کا واحد راستہ حقیقی پختہ عزم اور شام وعراق کی حکومتوں کی مدد کرنا ہے جو داعشی دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ممالک ہیں۔ امریکہ دہشتگردی کے خلاف مہم کے نام پر اتحاد تشکیل دینے میں تو آگئے آگئے ہے لیکن عملی میدان میں اسکی کارکردگی صفر ہے بلکہ اس نے کئی مواقع پر داعش دہشتگردوں کے علاقوں میں ہتھیار گرا کر دہشتگردی کی باقاعدہ مدد کی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اگر امریکہ مشرق وسطی میں اپنی مداخلت ختم کردے تودہشتگردی اپنی موت آپ مر جائے گی۔