الوقت- پاکستان میں ضرب عضب کے نام پر جو فوجی آپریشن جاری ہے اسکی ہرطرف سے ستائش کی جارہی ہے تاہم بعض انتہا پسندوں کی طرف سے اس پر انگلیاں بھی اٹھائی جارہی ہیں۔پاکستانی حکومت اور فوج دہشتگردی کے مقابلے بالخصوص شہر کراچی میں اس لعنت کی بیخ کنی پر تاکید کررہی ہے لیکن دہشتگرد گروہ اسلام آباد حکومت کے انسداد دہشتگردی کے پروگرام کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا کررہے ہیں۔ دہشت گرد گروہوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت دہشتگردی کے تعلق سے امتیازی رویے اختیار کئے ہوئے ہے۔ پاکستان میں جماعت الدعوۃ کے سرغنے حافظ سعید نے کہا ہے کہ اسلام آباد نے اگرچہ ساٹھ گروہوں کو ممنوعہ گروہوں کی فہرست میں شامل کیا ہے لیکن حقانی گروہ کا نام اس فہرست میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔حافظ سعید نے حکومت اسلام آباد کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
جماعت الدعوۃ کا نام دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں سب سے پہلے دیکھا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے اس پر کڑی نظر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی جماعت الدعوۃ کو دہشتگرد گروہ قرار دیا ہے اور اسکے سرغنے حافظ سعید کی گرفتاری کی خواہاں ہے۔ اس کے باوجود حافظ سعید پاکستان میں بھر پور آزادی کے ساتھ سرگرم عمل ہے اور اسلام آباد حکومت کی انسداد دہشتگردی کی پالیسیوں پرتنقید کررہا ہے۔ حقانی دہشتگرد گروہ جو القاعدہ دہشتگرد تنظیم سے تعلقات رکھتا اس پر افغانستان میں مغربی ملکوں اور ہندوستان کے مفادات پر کئي بھیانک حملے کرنے کےالزامات ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں مختلف حلقوں نے دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے میں پاکستانی فوج اور سکیورٹی اداروں کے طریقہ ہائے کار پر تنقید کی ہے اور ان پر اس سلسلےمیں امتیازی رویے اپنانے کا الزام لگایا ہے لیکن ایک دہشتگرد گروہ کا پاکستانی حکومت پر اس قسم کا الزام لگانا قابل غور ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دہشتگرد گروہ بھی پاکستانی حکومت پر بھی یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اچھی اور بری دہشتگردی کی قائل ہے اور ان کا یہ ماننا ہے کہ جو دہشتگرد گروہ پاکستانی انٹلیجنس ایجنسیوں کے زیر اثر ہیں اور ان ایجنسیوں کے منصوبوں پرعمل کرتے ہیں وہ اچھے دہشتگرد گروہ ہیں اور جن دہشتگردوں کی مفید تاریخ ختم ہوگئي ہے وہ برے دہشتگرد گروہ شمار ہوتے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ حکومت پاکستان نے بارہا اس طرح کے دعووں کو مسترد کیا ہے اور کسی طرح کے تحفظات کے بغیر دہشتگردوں کے خلاف سخت کاروائیاں کرنے پر تاکید کرتی ہے۔ پاکستانی امور کے ماہرین کے مطابق حکومت اسلام آباد کے مخالف مسلح گروہوں کو دو دھڑوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دھڑا سیاسی پارٹیوں سے وابستہ مسلح گروہوں کا ہے جو عام طور سے تخریبی کاروائيوں، اغوا کی وارداتوں اور ڈکیٹی میں ملوث ہوتا ہے۔ دوسرا دھڑا ان مذہبی انتہا پسند مسلح افراد کا ہے جنہوں نےسعودی عرب کے حمایت یافتہ دینی مدارس میں تعلیم پائي ہے اور وہابیت کے غلط افکار سے متاثر ہیں۔اس دوسرے دھڑے کی سرگرمیوں کا انحصار بھی پاکستانی انٹلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات پر ہے۔اسی وجہ سے پاکستان میں بعض گروہوں کا کہنا ہے کہ دہشتگرد گروہوں کے ساتھ حکومت کا امتیازی رویہ پاکستان میں بحران اور بدامنی کے جاری رہنے کا سبب ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر پاکستانی عوام یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی حکومت ٹھوس طریقے سے اور بغیر کسی طرح کے تحفظات کے دہشتگردوں سے نمٹے گي تا کہ پاکستان میں پائدار امن اور استحکام حکم فرما ہوجائے۔ کالم کا اختتام پاکستان کے معروف صحافی نذیر ناجی کے تازہ ترین تجزیئے سے کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہائوس میں انتہائی اہم اجلاس ہوا۔ جس میں مختلف فرقوں کے علمائے کرام‘ فوجی قیادت اور حکومتی نمائندوں نے شرکت کی۔ میرے نزدیک پاکستان میں امن قائم کرنے کے لئے یہ بنیادی اقدام تھا۔ پاکستان میں جو مختلف تنظیمیں‘ دہشت گردی کا بازار گرم کئے ہوئے تھیں اور انہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا‘ ضرب عضب کے بعدان کی اصل طاقت ختم ہو چکی ہے اور بقول جنرل راحیل شریف‘ ان کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ طالبان کے دہشت گرد گروہ اتنے خطرناک نہیں تھے‘ جتنی کہ فرقہ وارانہ نفرتیں حکومت اور معاشرے کے لئے خطرناک ہیں۔ دہشت گرد ‘ سیاسی واقعات کا نتیجہ تھے۔ سیاست بدلنے کے ساتھ‘ ایسے گروہ بھی منظر سے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اکادکا وارداتیں تو کر سکتے ہیں لیکن منظم کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ ایسا نہیں کہ وہ ختم ہو گئے۔ وہ یقینی طور پر موجود ہیں اور اکادکا وارداتیں جاری رکھ سکتے ہیں۔ لیکن فرقہ واریت کا جوزہر ‘ہمارے معاشرے کی رگوں میں دوڑ رہا ہے‘ وہ صدیوں پرانا ہے اور آج کی مسلم دنیا میں تو اس نے اتنی تباہی پھیلائی ہے ‘ جو مسلم معاشروں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔آج ہم مسلمان ملکوں پر نظر دوڑائیں‘ تو حالات دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی مختصر سی حکومت نے جو فرقہ وارانہ قتل عام کیا‘ وہ اس کے سامنے کچھ بھی نہیں جو آج کل عراق‘ شام‘ لبیا‘ یمن اور شرق اوسط کے بیشتر علاقوں میں جاری ہے