الوقت- اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی ہمسایہ ممالک بالخصوص اسلامی ممالک سے دوستانہ اور باہمی تعاون پر استوار ہے ۔ایرانی حکام اور ایران کی وزارت خارجہ اس میں ہمیشہ فعال رہی ہے اور مسلمان ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر رکھنے کے لئے بعض اوقات قومی مفادات کو بھی خطرے میں ڈالا ہے ۔افغانستان ایران کا اہم ہمسایہ ملک ہے لیکن اس ملک کے داخلی اور خارجی حالات اتنے گھمبیر ہیں کہ ایران کو اس ملک کے حوالے سے کئی بار سخت صورت حال سے گزرنا پڑا ہے۔ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان جب سے معاہدے کا مسئلہ آگئے بڑھا ہے تو علاقائی سطح پر بھی اسکے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اسی تناظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے کہا ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کا ایٹمی معاہدہ علاقے میں تعاون کا نیا باب کھول سکتا ہے اور اس سے علاقے کے ملکوں کی اقتصاد میں رونق آسکتی ہے۔ عبدالرضا رحمانی فضلی نے کابل میں منعقدہ اجلاس 'علاقائي معیتشی تعاون براے افغانستان' سے خطاب میں کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی یہ ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام قائم رہے۔انہوں نے کہا کہ ایران کی نظر میں افغانستان میں امن و استحکام پورے علاقے اور ایران میں امن و استحکام کے برابر ہے۔ ایران کے وزیر داخلہ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ممتاز جغرافیائي پوزیشن اور بھرپور امن و امان، نیز سڑکوں اور ریلوے ٹرانسپورٹ کے مناسب انفراسٹرکچر کی بنا پر افغانستان کی سڑکوں اور ریل ٹرانپسورٹ کو فعال کرنے نیز افغانستان کی معیشت اور تجارت میں رونق لانے میں مدد کرسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران علاقے میں اپنی اسٹراٹیجیک پوزیشن کی بنا پر علاقائی ملکوں اور عالمی منڈیوں کے درمیان پل کا کام کرسکتا ہے تا کہ علاقائي ممالک عالمی منڈیوں میں اپنا سامان بھیج سکیں اور یہاں سے مصنوعات لےجاسکیں۔
کابل میں گزشتہ دنوں افغانستان کی مدد کے لئے علاقائي معیشتی تعاون کی چھٹی عالمی کانفرنس ہوئي ہے اوراس میں تیس ملکوں کے حکام نیز چالیس بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔
قابل ذکر ہے افغانستان میں قومی اتحاد کی حکومت یہ کوشش کررہی ہے کہ اس نشست میں شریک ملکوں کو افغانستان کے انفرا اسٹرکچر منجملہ مواصلاتی راستوں، انرجی سیکٹر اور صنعت و معدنیات میں سرمایہ کاری کرنے پر مائل کرے۔ کابل نشست کے موقع پر ایران کے وزیر داخلہ نے افغاں صدر محمد اشرف غنی اور دیگر اعلی حکام سے ملاقات کی اور تہران کابل کے دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات میں صدر اشرف غنی نے زور دے کر کہا کہ دونوں ملکوں کے سرحدی تنازعات کو تیزی سے حل کیا جا سکتا ہے اور ایران و افغانستان کی سرحدوں کو اقتصادی اور سیکورٹی تعاون کی سرحدوں میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ نے بھی کہا کہ ایران کی نظر میں علاقے کے ملکوں کی سیکورٹی ایک دوسرے سے جڑی ہوئي اور یکساں ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں کسی بھی ملک کے امن وامان کو نقصان پنچنے سے تمام ملکوں کی سیکورٹی کو نقصان پہنچتا ہے۔
اس ملاقات میں ایران کی بندرگاہ چابہار سے استفادہ کرنے کے مواقع کی فراہمی، ایران افغانستان کے مشترکہ اقتصادی کمیشن کے پانچویں اجلاس کا انعقاد، خواف ہرات ریلوے لائن کی تکمیل، بعض دیرینہ سرحدی اختلافات کے حل، دونوں ملکوں کی سرحدوں سے شہریوں کی غیر قانونی رفت و آمد کوروکنے کےلئے کوششیں کرنے، ایران میں مقیم افغاں شہریوں کی وطن واپسی کے لئے انہیں معاشی وسائل فراہم کرنے جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر داخلہ نے اپنے افغان ہم منصب نور الحق علومی سے ملاقات میں کہا کہ تہران اور کابل کے درمیان داخلی سیکورٹی، انسداد دہشتگردی، منشیات اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام جیسے مسائل میں جاری تعاون میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی آنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایران اور افغانستان کو اپنے عوام کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ٹرانزیٹ، معدنیات، زراعت اور تجارت میں تعاون کرنا چاہیے۔ افغانستان کے وزیر داخلہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویزوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ ایران اور افغانستان کے دوستانہ تعلقات میں روز بروز استحکام آتا جائے گا۔ ایران کے وزیر داخلہ نے کابل میں قومی اتحاد کی حکومت کے چیف ایگزیکیٹیو عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران شروع سے مختلف حالات میں افغانستان کی مدد کرتا چلا آيا ہے اور اس امداد کا جاری رہنا اسلامی جمہوریہ ایران کی وسعت صدر اور نیک نیتی کی علامت ہے۔ واضح رہے ایران کے وزیر داخلہ نے افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر سے بھی ملاقات کی اور علاقے کے سیکورٹی مسائل کے بارے میں بات چیت کی۔ ایران اور افغانستان کے درمیان تقریبا نو سو چالیس کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ دونوں ملکوں کو ان سرحدوں سے ہونے والی منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ پر شدید تشویش لاحق ہے۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران اور افغانستان صرف اپنی سرحدوں کو کنٹرول اور ایران میں موجود افغان مہاجرین کی باوقار واپسی کو یقینی بنا لیں تو دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف تعلقات میں بہتری آجائیگی بلکہ ان قوتوں کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا جو مختلف جیلے بہانوں سے ایران افغان تعلقات کو خراب کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔