الوقت- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر اور سائبر اسپیس کونسل کے اراکین نے پیر کے دن رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ثقافت، سیاست، اقتصاد، دینی اعتقادات اور اخلاقیات سمیت مختلف میدانوں میں سافٹ پاور کے طور پر سائبر اسپیس کے اثرات کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ سائبر اسپیس میں معاشرے کی اخلاقی اور فکری حدود کے تحفظ کے مقصد سے مناسب اور دقیق منصوبہ بندی ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے صراحت کے ساتھ فرمایا کہ جوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے، صحیح پالیسیاں وضع کرنے اور وقت ضائع کئے بغیر، سنجیدہ اور مربوط اقدامات انجام دے کر سائبر اسپیس کے میدان میں جمود کی حالت سے نکلنا اور بھرپور و موثر موجودگی نیز مضبوط اور پرکشش اسلامی مواد کی تیاری کی جانب گامزن ہونا چاہئے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ سائبر اسپیس میں بھرپور اور موثر موجودگی کے لئے فیصلہ سازی کا ارتکاز، وقت ضائع کئے بغیر فیصلے پر عملدرآمد، مختلف محکموں کے درمیان ہم آہنگی اور متوازی و متضاد اقدامات سے اجتناب لازمی ہے۔
آج ہم ایسے زمانے میں زندگي گذار رہے ہیں کہ انسان کی روزمرہ کی تمام سرگرمیاں تقریبا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے انجام پارہی ہیں۔ انسان جتنا انٹرنیٹ ٹکنالوجی پربھروسہ کرتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ سائیبر حملوں کی زد میں آجاتا ہے۔ آج شاید انسانی کی سب سےبڑی تشویش اور پریشانی وہ ہے جسے ماہرین پانچواں میدان جنگ کہتے ہیں۔ چار میدان جنگ زمین، فضا، سمندر اور خلا ہیں۔ یہ پانچواں میدان اور اس میں لڑنے والے دکھائي نہیں دیتے کیونکہ وہ انٹرنیٹ کے نہایت پیچیدہ نیٹ ورک کے سہارے حملے کرتے ہیں اور یہ حملے غالبا فرعی یا سکنڈری ذرائع سے انجام پاتے ہیں۔ ان حملوں کے حقیقی سرچشمے کا سراغ لگانا اکثر بڑا دشوار ہوتا ہے۔ جارج میسن یونیورسٹی میں انٹرنیشنل سائبر سنٹر کے نائب سربراہ ایرون سود کہتے ہیں اگر آپ ایک لڑا کا طیارے کو دیکھیں تو آپ کو پتہ جل جائے گا کہ کس ملک سے تعلق رکھتا ہے لیکن اگر آپ سائبر حملوں سے دوچار ہوجائيں تو شاید ہی سمجھ پائيں کہ یہ حملہ کہاں سے کئے جارہے ہیں۔ سائبر حملوں کا دامن نہایت وسیع ہے۔ ان میں معمولی سے مذاق سے لے کر کمپیوٹر کےخلاف تخریبی کاروائياں ہوتی ہیں، یہ حملے پورٹیبل ہارڈ اور ای میل کے ذریعے کئےجاسکتے ہیں اور ان سے پورے ملک کی سکیورٹی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ نیٹو کے ایک تحقیقاتی انسٹی ٹیوٹ نے بھی ایران کے خلاف سائبر حملوں کو طاقت کے استعمال کے مترادف قراردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا ایک مصداق ہے۔ اسٹونیہ میں نیٹو کے سائیبر وار فیر شعبے کی سفارش پر کی گئي تحقیقات میں کہا گيا ہےکہ " ہر وہ اقدام جو کسی کے مارے جانے یا زخمی ہونے یا نقصان پہنچنے کا سبب بنے واضح طور پر طاقت کے استعمال کا مصداق ہے۔ نیٹو کی سفارش پر تیار ہونے والی رپورٹ کو سائبر جنگ کے بارے میں عالمی قوانین کے بارے میں ٹالین مسودہ قراردیا گيا ہے۔ یہ مسودہ بیس افراد کی ٹیم نے تیار کیا ہے۔اس ٹیم کے سربراہ امریکی بحریہ کی کالج میں عالمی قوانین کے شعبے کے سربراہ مایکل اشمیت تھے۔ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق طاقت کا استعمال صرف سلامتی کونسل کی منظوری سے ممکن ہوسکتا ہے اور یہ جائزہ دفاع کے عنوان سے کسی جارح ملک کے مقابل ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اشمیت کے بقول بلاشبہ اسٹکس نیٹ سے کئےجانے والے سائبر حملے طاقت کے استعمال کے زمرے میں آتے ہیں۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ ٹالین مسودے کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ وہ ایران کو یہ حق دیتا ہے کہ خواہ فوجی لحاظ سے ہو یا ان ہی روشوں سے جوابی حملے کرے جیسے اس پر سائبر حملے کئے گئےتھے اپنا جائز دفاع کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود اشمیت یہ کہتے ہیں کہ چونکہ سائبر حملوں کے سرچشموں کا اثبات کرنا ہنوز ناممکن ہے لھذا اسی انداز میں جواب دینا ابتدائي حملہ اور جارحیت سمجھی جائے گي۔ البہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا رول قابل غور ہے۔ اقوام متحدہ کا منشور سائبر اسپیس کے وجود میں آنے سے پہلے قلم بند کیا گيا ہے۔ اسی وجہ سے سائبر حملے ایک نیا چیلنج بن گئے ہیں اور اس مسئلے کو روایتی متون سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ آج یہ مسئلہ عالمی مسئلہ بن گيا ہے جس کی وجہ سے اسے موجودہ جنگي قوانین اور حقوق نیز جو حکومتیں ان حملوں کا شکار بن چکی ہیں انہیں کچھ چوائس دینے چاہیں اور اس پر اجماع ہونا ضروری ہے۔ اگرحکومتیں ماضی میں وضع کئے گئے عالمی حقوق کے مطابق سائبر حملوں کے مقابل اپنا دفاع کرنے میں ناتواں رہیں گي تو دنیا میں نہایت شدید مسائل سراٹھانے لگیں گے اور اس حساس مسئلے کو اقوام متحدہ کو حل کرنا ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کی شیطانی قوتیں سائبر اسپیس سے منفی اھداف حاصل کرنا چاہتی ہین لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے اس وسیلے کو انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کرنے پر زور دیا ہے۔آپ نے بظاہر ایرانی حکومت کو اس حوالے سے مختلف نصیحتیں کی ہیں لیکن آپ نے تمام مثبت قوتوں کو دعوت دی ہے کہ سائبر اسپیس کو انسانیت کی فلاح کے لئے استعمال کیا جائے۔