الوقت- گزشتہ کچھ عرصے میں مصر میں اتنی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں کہ اس کے بارے میں کچھ پیشنگوئی کرنا ایک مشکل امر ہوگیا ہے۔محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ اخوان المسلین کو انڈر گراؤنڈ کرنا اور ایک انتہائی مضبوط تحریک کو پسپائی پر مجبور کردیا اسکے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر امریکہ اور اسکے حواریوں حتی سعودی عرب کو اپنا ہمنوا بنانا ایک مشکل کام تھا لیکن جرنل السیسی کی حکومت یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب رہی ۔السیسی نے ایک طرف سعودیہ کو خوش کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف یمن کی جنگ سے بھی اپنے اپ کو بڑی خوبصورتی سے بچا لیا۔ عالمی سفارتکاری کی ان کامیابیوں کے بعد مصر نے روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات استوار کرکے امریکہ کو کچھ اہم اشارے دینے کی کوشش بھی کرڈالی جسکے نتیجے میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مصر کی حکومت کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں توسیع کا خیر مقدم کیا ہے۔ روس کے صدر نے ماسکو میں مصر کے صدر کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ روس مصر میں ایک انڈسٹریل ایریاقائم کرنا اور مصر کے ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر میں روسی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ مصر کے صدر نے بھی اس امید کا اظہار کیا ہے کہ سوئیز کے علاقے میں روس کے انڈسٹریل ایریا کے قیام سے متعلق اقدامات کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قاہرہ ایٹمی توانائی کی پیداوار کے سلسلے میں ماسکو کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
چند ماہ کے دوران مصر کے صدر کے دوسرے دورۂ روس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عبدالفتاح السیسی مصر کے خارجہ تعلقات میں تنوع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مصر کے معزول صدر حسنی مبارک کی حکومت کے زمانے میں واشنگٹن اور قاہرہ کے درمیان بہت قریبی تعلقات تھے اور امریکا نے حسنی مبارک کی حکومت بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن عوام کے انقلاب کی وجہ سے اسے اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ اگرچہ مصر میں عوامی انقلاب کے بعد بہت سے نشیب و فراز آئے اور کرشماتی قیادت کے فقدان کی وجہ سے اس ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہوسکا لیکن اب مصر میں سیاسی کشیدگی میں کمی واقع ہوئي ہے۔ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی گزشتہ برس مئی کے مہینے میں اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد سے دوسرے ممالک کے ساتھ مصر کے تعلقات میں تنوع پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل کئي عشروں تک مصر امریکا کے ساتھ وابستہ رہا ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی بنیاد پر امریکا مصر کو ہر سال بلا معاوضہ فوجی امداد دیتا تھا۔ سنہ دو ہزار تیرہ میں مصر کے منتخب عوامی صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت سے قبل امریکا کی جانب سے مصر کو دی جانے والی سالانہ بلامعاوضہ فوجی امداد تقریبا ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر تک پہنچ گئي تھی۔ امریکا نے بقول اس کے مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جمہوریت کے کچلے جانے کی بنا پر مصر کی مدد روک دی ہے۔ مصر کے سلسلے میں امریکا کی پالیسی میں آنے والی تبدیلی کے پیش نظر عبدالفتاح السیسی چین، روس اور یورپی ممالک کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے ذریعے بڑی طاقتوں کے ساتھ مصر کے تعلقات کو متوازن بنانا چاہتے ہیں۔ عبدالفتاح السیسی کی حکومت خارجہ تعلقات کو متوازن بنا کر دو اہم مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ پہلا مقصد یہ ہے کہ وہ مصر میں اپنے اقدامات پر مہر تصدیق ثبت کروانا چاہتی ہے۔ دوسرا مقصد اقتصادی میدان میں تنوع پیدا کرنا ہے تاکہ چین، روس اور یورپ کے ساتھ اقتصادی تعلقات میں توسیع کے ذریعے امریکا سے ملنے والی مدد کے خلا کو پر کیا جا سکے اور مصر کی شدید اقتصادی مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔ اقتصادی مشکلات کے علاوہ مصر کو دہشت گردی کے مسئلے کا بھی سامنا ہے اور اس ملک کے علاقے سینا میں اب تک دہشت گردی کے متعدد واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ مصر کی سیاسی اور اقتصادی مشکلات کے پیش نظر دو بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کے حق کا حامل ہونے کی حیثیت سے چین اور روس کے ساتھ باہمی تعاون میں توسیع مصر کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کا علاقہ دہشت گردی کے مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق دہشت گردی میں پھیلاؤ دوسرے ممالک کے داخلی امور میں مداخلت کے ذریعے بین الاقوامی امور پر تسلط برقرار رکھنے پر مبنی یورپ خصوصا امریکا کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ اس بات کے پیش نظر مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کے روس اور اس کے بعد چین کے دورے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے خاص طور پر اس بات کے پیش نظر کہ عبدالفتاح السیسی کا خیال ہے کہ ماسکو اور بیجنگ مصر کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ مصری صدر کا یہ تجزیہ کسی حد تک درست نظر آتا ہے کہ مزکورہ دونوں ممالک امریکہ کی طرح اپنے اتحادیوں کو ایک کالونی سمجھ کر ڈیل نہیں کرتے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے ایک مخصوص قوت کے حصول کے بعد ان میں بھی استعماری خو پیدا نہیں ہوگی بہرحال موجودہ صورت حال میں مصر کا روس کے قریب جانا اور چین کا بھی اس میں دلچسپی کا اظہار کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ اپنے ایک اور اتحادی سے بہت جلد دور ہونے والا ہے۔