الوقت- پاکستان اور خطے کی سیاست پر سرسری نظر رکھنے والا معمولی تجزیہ نگار بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ عالمی سطح خاص کر پاکستان اور افغانستان میں بد امنی،دہشتگردی اور سیاسی عدم استحکام کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے پیچھے سیاسی اور سازشی سوچ بوڑھے استعمار برطانیہ کی ہے ۔حالیہ تمام برائیوں کی جڑ ہونے کے باوجود امریکہ اس ڈھٹائی سے اپنے آپ کو عالمی اور خطے کے امن کا علمبردار کہلواتا ہے کہ ہر باشعود انسان حیران اور پریشان ہوجاتا ہے حال ہی میں امریکہ نے اسی طرح کا بیان دیکر عالمی بالخصوص پاکستانی رائے عامہ کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے ۔
امریکہ کی وزارت خارجہ نے پاکستان میں جاری بدامنی کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ واشنگٹن، دہشت گردی کی بیخ کنی اور سیکورٹی کی بحالی کے لئے، اسلام آباد حکومت کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان، ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ وائٹ ہاؤس علاقے منجملہ پاکستان اور افغانستان میں بدامنی کا اصلی زمہ دار ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں پر تشدد واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور پاکستان کے عوام ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور امریکہ فرشتۂ نجات اور ماں سے زیادہ مہربان داعی بننے کی کوشش کرکے پاکستان میں سیکورٹی کی برقراری میں مدد کا دم بھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ امریکہ نے سن دو ہزار میں افغانستان پر فوجی حملے، دہشت گرد اور انتہاپسند گروہوں کی حمایت، افغانستان میں منشیات کی اسمگلنگ کی تقویت، انتہاپسند گروہوں کے ساتھ مذاکرات کے آغاز، پاکستان اور افغانستان کی قومی حاکمیت اور ارضی سالمیت کے حوالے سے بے توجہی برتنے اور اس کے ساتھ ساتھ نجی سیکورٹی کمپنیوں کے نام سے دنیا بھر سے مجرموں اور جاسوسوں کی بھرتی کر کے اور پاکستان و افغانستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں کی بمباری کے ذریعے، علاقے اور ان دونوں ملکوں میں خونریزی اور پر تشدد واقعات کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہر چند کہ پاکستان، افغانستان پر امریکہ کے حملے کے آغاز سے، امریکہ کے ایک اتحادی کے عنوان سے واشنگٹن کے ساتھ کھڑا رہا ہے، لیکن جب امریکہ نے اپنے آپ کو افغانستان کے دلدل میں پھسا ہوا دیکھا، تو افغانستان میں اپنی فوج کی شکست کا عامل اور زمہ دار، اسلام آباد کو قرار دے دیا اسکے بعد امریکی فوج اور سیاسی حلقوں کی جانب سے پاکستان کی کارکردگی پر شدید تنقیدوں کا آغاز ہوگيا۔ یہ صورت حال پاکستان کے ساتھ امریکہ اور نیٹو کے تعلقات میں سرد مہری پر منتج ہوئی۔ اس وقت دہشتگرد عناصرنے ،جو علاقے میں امریکہ کے آلہ کار ہیں، افغانستان اور پاکستان میں اپنے وحشیانہ حملوں میں اضافہ کردیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ، فرشتۂ نجات کے عنوان سے اس کوشش میں ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ان ملکوں میں اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط کریں۔ دہشتگرد گروہ داعش سے مقابلے کے بہانے افغانستان میں برطانیہ کےخصوصی فوجی دستوں کی واپسی اور اسی طرح پاکستان میں سیکورٹی کی برقراری میں مدد کے حوالے سے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان، اس تناظر میں قابل غور و غوض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے رائے عامہ بارہا اپنے ملک کے امور میں امریکہ کی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے، اسلام آباد حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ سیاسی و سیکورٹی مسائل کے حوالے سے واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کرے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دہشت گردی کے خلاف مقابلے کے لئے پیشگی اقدامات پر مبنی بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ، اسلام آباد کی حکومت دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لئے پختہ عزم و ارادہ رکھتی ہے۔ اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ ملکوں کے داخلی امور میں امریکہ کی عدم مداخلت اور دہشت گردوں کی عدم حمایت ، دہشتگردی کے خلاف مہم میں علاقائی حکومتوں کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوسکتی ہے۔امریکہ نے گیارہ ستمبر کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھالیکن ہرکوئی جانتا ہے اور امریکہ کے اعلی حکام بھی اسکی تائید اور اعتراف کرچکے ہیں کہ القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں کو انہون نے خود خلق کیا ہے ۔ایسے میں امریکہ کیطرف سے دہشتکردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد دھوکے اور سازش کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اس اقدام کے زریعے اپنے پالے ہوئے دہشت گردوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہے تاکہ وقت ضرورت انہیں کہیں اور استعمال کیا جاسکے