الوقت- ایک ایسے وقت جب خطے میں امریکی اثرونفوز خطرے سے دوچار ہے ایران کی وزارت خارجہ نے جارحانہ اسٹریٹیجی کو جاری رکھتے ہوئے سفارتی محاز کو خوب گرم کررکھا ہے اس سفارتی جنگ میں جہاں جواد ظریف مسلسل چوکے چھکے لگا رہے ہیں وہاں قدس بٹالین کے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کا مبینہ دورہ روس بھی امریکہ سمیت صیہونی مخالف لابی کے لئے ایک مخمصہ بنا ہوا ہے ۔ ایران کی سفارتی جنگ کے کمانڈر جواد ظریف آج دو ایسے ملکوں کے سفر پر ہیں جن کے باہمی اختلافات دو سے زیادہ جنگوں کا باعث بن چکے ایران کی کوششوں سے اگر ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی آجاتی ہے تو اسے ایران کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جاسکتا ہے بہرحال ایران کے وزیر خارجہ پاکستان اور ہندوستان کے دورے پر ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس دورےکے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جو ایک روزہ سرکاری دورے پر پاکستان گئے تھے اسلام آباد میں اپنے قیام کےدوران پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے دوجانبہ تعلقات نيز اہم علاقائي اور عالمی مسائل کے بارے میں گفتگو کی۔ اسلام آباد سے ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر ہونے والی بات چیت میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تہران اور اسلام آباد کے درمیان ہر سطح پرتعاون بڑھانے کی ضرورت پر تاکید کی۔ دونوں رہنماؤں نے ویانا جوہری سمجھوتے کے بعد کے حالات کے تناظر میں علاقائي مسائل کے سیاسی اور سفارتی حل کے سلسلے میں بھی بات چیت کی۔ محمد جواد ظریف چھ بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کے بعد اپنے علاقائی دورے کے دوسرے مرحلے میں منگل کے روز لبنانی حکام اور سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کے لئے بیروت گئے تھے۔ محمد جواد ظریف شام کے بحران کے حل کی کوششوں کےتحت بیروت سے دمشق پہنچے جہاں انہوں نے شام کے صدر بشار اسد سے گفتگو کی۔ محمد جواد ظریف نے اپنے علاقائي دورے کو جاری رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران کے مشرقی ہمسائيہ ملک پاکستان کا رخ کیا اور پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں دو جانبہ تعلقات نیز علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ ایران اور چھ بڑي طاقتوں کے درمیان جوہری سمجھوتے کے طے پانے کے بعد ایران کی علاقائي اور عالمی پوزیشن میں استحکام نے تہران کو اس بات کا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ علاقائی مسائل کے حل کے سلسلے میں موثر اور بھرپور کردار ادا کرے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران خطے کی اقوام کو دہشت گردی جیسی لعنت نے پوری طرح سے اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے اور کوئي دن ایسا نہیں جاتا جب علاقے کے کسی نہ کسی ملک میں دہشت گردی کا کوئي واقعہ رونما نہ ہوتا ہو۔ علاقے کے عرب ممالک کثیرالقومی دہشت گرد گروہ داعش کی جو نہایت ہی مشکوک اور منظم طریقے سے وجود میں آیا ہے، آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ داعش سے موسوم اس دہشت گرد گروہ نے نہایت سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان ملکوں کی سلامتی اور استحکام کو خطرے میں ڈالدیا ہے کہ جس سے ظاہری نعروں اور نام نہاد بین الاقوامی اتحاد تشکیل دے کر نہيں نمٹا جاسکتا۔ بلکہ اس وحشی اور سرکش گروہ سے نمٹنے کے لئے سنجیدہ عزم وارادے کی ضرورت ہے۔ ایران کے مشرقی ہمسائیہ ملک یعنی افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کا ماضی کافی پرانا ہے۔ تکفیری نظریات اور انتہا پسندی کی بنیاد پر پروان چڑھنے والے دہشت گرد گروہ جو بسا اوقات اسلامی بنیاد پرستی کے دعوؤں کے ساتھ ظہور میں آئے ہیں، سالہال سے افغانستان اور پاکستان کے عوام کا چین سکون برباد کئے ہوئے ہيں۔ پاکستان، سعودی عرب کے شاہی دربار سے وابستہ وہابیوں کی وسیع سرگرمیوں کے پیش نظر تکفیری گروہوں کی تربیت اور ٹریننگ کامرکز بن گيا ہے جو ایک طرف تو پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کئے ہوئے ہیں اور دوسری طرف دیگر ملکوں خصوصا افغانستان حتی اسلامی جمہوریہ ایران کی مشرقی سرحدوں کو اپنے دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے ناامن کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہيں۔ سرحدی چوکیوں پر حملوں اور ایرانی سرحدی گارڈز کو شہید کرنے کی کاروائيوں میں ملوث دہشت گرد عناصر کو پاکستان کے اندر ہی ٹریننگ دے کر مسلح کیا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستانی حکام کے ساتھ ایران حکام کی دو جانبہ بات چيت اور مذاکرات کا محور زیادہ تر انہيں مسائل پر استوار رہا ہے۔ دیگر مسائل کے تعلق سے یمن کا معاملہ بھی دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان مذاکرات کا ایک محور تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ انتہائي قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم ہيں اور اسی دوستی کو سامنے رکھتے ہوئے ریاض نے یمن پر جارحیت سے قبل پاکستان سے فوجی مدد و تعاون کی درخواست کی تھی۔ آل سعود کی نواز حکومت سے اس درخواست کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزيرخارجہ محمد جواد ظریف اسلام آباد پہنـچے جہاں انہوں پاکستانی حکام سے بات چیت کی۔ اسلام آباد کی جانب سے یمن پر حملے میں تعاون سے متعلق ریاض کی درخواست کو مسترد کئے جانے کے اقدام کو سیاسی امور کے ماہرین نے پاکستانی حکام کے ساتھ محمد جواد ظریف کے صلاح مشورے کا نتیجہ قرادیا۔ ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری سمجھوتہ طے پائے جانے کے طاقت فرسا عمل کو ایک ماہ بھی پورا نہيں ہوا ہے تاہم محمد جواد ظریف اسی عرصے کے دوران قطر، عمان، کویت، عراق، شام اور پاکستان کے دورے پر ہیں جو تہران کی کامیاب اور موثر سفارتکاری کا مظہر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی اصولی پالیسی کے پیش نظر جو ہمسائیہ ملکوں کے ساتھ مفید اور تعمیری تعلقات کے فروغ پر استوار ہے، مغرب کے ساتھ ایران کے تعلقات ميں بہتری، ایران کے علاقائی تعلقات کے تابناک اور روشن مستقبل کی نوید دے رہی ہے۔دوسری جانب ہندوستان کی کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر نے ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ ہندوستان کو دونوں ممالک کے تعلقات میں فروغ کا ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔
ہندوستان کی کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر امریش سنگھ گوتم نے ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد جواد ظریف کے دورہ ہندوستان سے دونوں ممالک کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات میں فروغ کے مواقع فراہم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ دو عظیم ممالک کی حیثیت سے ایران اور ہندوستان کے تعلقات میں مزید فروغ، علاقائی اور عالمی بحرانوں کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ہندوستان کی کانگریس پارٹی کے سینیئر لیڈر امریش سنگھ گوتم نے یہ بات زور دیکر کہی کہ دونوں ممالک، توانائی کے شعبے کے علاوہ، بنیادی تنصیبات، نقل و حمل اور ایرپورٹ ٹیکنالوجی میں تعاون کے ساتھ ساتھ، تجارت کی سطح میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔