الوقت- سلامتی کونسل کی جانب سے ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کے بعدایران کے ساتھ تعلقات کے فروغ کے مقصد سے تہران آنے والے والے مغربی ملکوں میں دوڑ شروع ہوگئی ہے۔ تہران میں اس صورتحال کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ یورپی ممالک جو کسی زمانے میں ایران کے سب سے بڑے تجارتی حلیف شمار ہوتے تھے، مشترکہ جامع ایکشن پلان کی منظوری کے بعد بعد وقت ضائع کئے بغیر یک بعد دیگرے ایران آرہے ہيں۔ چنانچہ پیر کے روز جرمنی کے نائب چانسلر اور وزیر اقتصادیات و توانائی زیگمار گابریل نے صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ایران کے سرمایہ کاروں اور یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کا جرمنی کے ساتھ سالہا سال سے باہمی رابطہ رہا ہے اور دونوں ملکوں کے تعاون کا ایک بہترین ماضی ہے۔ جرمنی کے نائب چانسلر ایران کے ساتھ تمام شعبوں تعاون بڑھانے کے لئے اپنے ملک کی بھرپور آمادگی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل جرمنی کے نائب چانسلر اور وزیر اقتصادیات و توانائی زیگمار گابریل نے جو ایک ساٹھ رکنی وفد کے ہمراہ ایران کے دورے پر ہیں ایرانی حکام کے ساتھ ہونے والی میٹنگوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی مختلف راہوں کا جائزہ لیا۔ دوسری جانب سوئزر لینڈ کے نائب وزیر خارجہ "ایو رسیہ" ایک وفد کے ہمراہ جنوب مغربی صوبے خوزستان پہنچے اور پیر کی شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں ایران اور دنیا کی چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے سمجھوتے پر اپنی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاقے کی حساس صورتحال کے پیش نظر ایران نہ صرف اس خطے میں بلکہ عالمی سطح پر معاشی اور سیاسی لحاظ انہتائی اہم مقام رکھتا ہے۔ ادھر اٹلی سے بھی خبر ملی ہے کہ اس ملک کے وزیرخارجہ " پاؤلو جنٹیلونی" اور اٹلی کی معاشی ترقی کی وزیر " فیڈریکا گوئیڈی" تہران اور روم کے درمیان دوجانبہ فروغ کے مقصد سے اگست کے پہلے ہفتے میں ایک سیاسی اور تجارتی وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ کریں گے۔ اس سلسلے ميں اٹلی کے وزیر خارجہ " پاؤلو جنٹیلونی" کا کہنا ہے کہ ایران اور چھ بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ایٹمی سمجھوتے کا عالمی سطح خاصا مثبت اثر مرتب ہوگا اور اس سے علاقائی بحرانوں کے حل میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان نے ملت ایران اور خطے کے لئے مثبت اور نئے مواقع فراہم کردئیے ہیں۔ " پاؤلو جنٹیلونی" نے مذید کہا کہ یہ معاہدہ ایران کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کی بحالی میں موثر واقع ہوگا۔آسٹریا کے وزیر خارجہ "سباسٹیان کورٹز" نے بھی کہا کہ آسٹریا کے صدر کی قیادت میں ایک اعلی سطحی وفد ستمبر کے مہینے میں ایران کادورہ کرے گا۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران کسی مغربی ملک کے صدر کا یہ پہلا مجوزہ دورہ شمار ہوتا ہے۔ آسٹریا کی ميزبانی میں تئیس اور چوبیس جولائي کو ایک دوروزہ کانفرنس کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے جس میں یورپی ممالک ایران میں تجارت اور سرمایا کاری سے متعلق امور کا جائزہ لیں گے۔ یورپی یونین اورایران کے درمیان کی ایک دو روزہ نشست ستمبر کے آخری ہفتے میں سوئزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں منعقد ہوگي۔ ایٹمی مذاکرات اور پابندیوں کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی یورپی ملکوں کے حکام کی جانب سے ایران آنے کے لئے جس ذوق و شوق کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ ایران پر لگائي جانے والی بدترین اورظالمانہ پابندیوں کے سبب ایران سے زیادہ خود یورپی ممالک متاثر ہوئے ہیں۔ کیوں سالہا سال کے بائيکاٹ کے سبب دنیا کے بڑے صنعتی ممالک سے بہت سے مواقع سلب ہوگئے چنانچہ اب وہ اپنے نقصانات کی تلافی کے لئے علی اعلان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔