الوقت- مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ افریقہ بھی دہشتگردی کی لپیٹ میں اور سب سے بڑی اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہاں بھی اس دہشتگردی کے پیچھے اسلامی انتہا پسندی نظر آرہی ہے۔القاعدہ ،طالبان ،داعش اور النصرہ جیسے گروہوں کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسلام جیسے امن پسند مذہب کے نام پر کوئی گلے بھی کاٹ سکتا ہے یا خودکش حملوں سے بےجرم و بےخطا نمازیوں کو بھی خون میں غلطاں کیا جاسکتا ہے اسلام کے نام پر انسانیت کا قتل اور جہاد کے پردے میں جہاد النکاح جیسے فتوے ایسے واقعات اور حقائق ہیں کہ ایک حقیقی مسلمان اسے بیان کرتے ہوئے بھی شرمندگی کا احساس کرتا ہے ۔شروع میں کہا جارہا تھا کہ انتہاپسندی کی اڑ میں صرف مشرق وسطی کے مسلمان ہیں لیکن اس دہشت گردی کو شروع کرنے والوں کا مقصد صرف ایک خطہ نہین تھا بلکہ وہ تو دین اسلام کو بدنام کرنے کے درپے تھے یہی وجہ ہے کہ اس دہشتگردی کو افریقہ میں بھی رواج دینے کی کوشش کی گئی جسکی فصل اب پک کر تیارہو چکی ہے اور اس کو بونے والا اس فصل کو کاٹ بھی رہا ہے تازہ ترین خبروں کے مطابق نائیجیریا میں دہشت گرد گروہ بوکوحرام نے ڈیڑھ سو افراد کو قتل کر دیاہے۔
فرانس پریس کی رپورٹ کے مطابق نائیجیریا میں سرگرم دہشت گرد گروہ بوکوحرام نے جمعرات کو اس ملک کے شمال مشرقی علاقے کے متعدد دیہاتوں کے گھروں اور مساجد پر حملہ کرکے تقریبا ڈیڑھ سو افراد کا قتل عام کر دیا جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں - اس رپورٹ کے مطابق دسیوں مسلح عناصر نے صوبہ بورنو کے دور افتادہ تین دیہاتوں میں یہ قتل عام کیا ہے- نائیجریا کے صدر محمدو بوہاری کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کا یہ سب سے بڑاخونریز واقعہ ہے- مذکورہ رپورٹ کے مطابق مسلح افراد نے ستانوے افراد کو صرف کوکاوا گاؤں میں ہلاک کیا ہے- عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ مسلح افراد کی تعداد پچاس سے زیادہ تھی- دہشت گرد گروہ بوکو حرام گذشتہ کئی برسوں سے نائیجیریا کے شمال مشرقی علاقوں کے باشندوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ نائیجیریا میں اس حملے کے بعد حکومت نے ایمرجنسی نافذ کردی ہے اور چھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کرنے کا بھی اعلان کیا ہے ۔یہ حملے ایسی صورت حال میں ہورہے ہیں کہ نائیجیریا کے صدر محمدو بوہاری نے اپنی انتخابی مہم میں ملک کو بوکوحرام کی دہشتگردی سے نجات دلانےکا اعلان کیا تھا۔بوہاری نے اپنی انتخابی مہم میں سابق صدر گولاک پر بوکوحرام کے حوالے سے تنقید کرتے ہوئے بارہا کہاتھا کہ اگرنائیجیریا کے عوام نے ان کو ووٹ دئيے تو وہ ملک کو بوکوحرام کی دہشتگردی سے پاک کردیں گے اور اس گروہ کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔محمدو بوہاری کو صدر کا عہدہ لئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن انہیں ابھی تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے اور حالیہ واقعہ کو بوکوحرام کے دہشتگردی کے حوالے سےسب سے بڑا واقعہ قرار دیا جارہا ہے ۔صدر بوہاری نے پہلے قدم کے طور پر شمالی نائیجیریا میں واقع شہر مایدگوری پر سیکوریٹی کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اس شہر میں فوج اور سیکوریٹی کی تعداد میں نمایاں اضافہ کیا کیونکہ اس شہر کو بوکوحرام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے ۔ اس شہر میں کئی دھماکے ہوچکے ہیں جن میں سینکڑوں افراد مارےگئے ہیں۔ صدر محمدو بوہاری نے بوکوحرام سے مقابلے کے لئے مشترکہ فوجی کمانڈ تشکیل دی ہے اور اس کی سربراہی بھی اپنے ذمہ لی تاکہ بہتر انداز سے اس مہم کو آگئے بڑھایا جاسکے۔انہوں نے جوہنسبرگ میں ہونے والے اجلاس میں بوکوحرام سے مقابلے کے لئے اکیس ملین ڈار کی رقم بھی مختص کی ہے ۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نائیجیریا کے صدر نے بوکوحرام کے خلاف کئی اہم اقدامات انجام دئيے ہیں لیکن اس گروہ کی بیخ کنی کے لئے حکومت کو مذید بحٹ کے ساتھ ساتھ عزم اور بہتر منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے ۔بوکوحرام کی طرف سے ملک کے اندر اور خاص کر ہمسایہ ملک چاڈ میں انجام دی جانے والی دہشتگردی نے اس گروہ کے حوالے سے خطرات کو مذید نمایاں کردیا ہے ۔
عالمی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر شمالی نائیجیریا اور اسکے ہمسایہ ممالک میں بوکوحرام کی سرگرمیوں پر قابو نہ پایا گیا اور اس دہشتگرد گروپ کو ختم نہ کیا گیا تو یہ گروہ نہ صرف نائیجیریا کے ہمسایہ ممالک بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک بڑے خطرے میں تبدیل ہوجائیگا۔