الوقت- دہشتگرد گروہ داعش سے وابستہ افراد نے مشرقی افغانستان کے بعض علاقوں سے طالبان کو باہر نکال کر ان علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔
افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں ہونے والی جھڑپوں سے فرار اختیار کرنے والے عینی شاہدوں نے بتایا ہے کہ داعش دہشتگردوں نے خشخاش کے کھیتوں کو جو طالبان کی آمدنی کا ذریعہ ہے، آگ لگا دی ہے۔طالبان گروہ نے کہ جو اس سے قبل، داعش کو افغانستان میں مداخلت پر خبردار کرچکا تھا، ننگرہار کے بعض علاقوں کے ہاتھ سے نکل جانے کا اعتراف کیا ہے لیکن تاکید کی ہے کہ یہ دہشتگرد گروہ طالبان کےمقابلے میں کچھ نہيں ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ وہ چور اور بدمعاش ہيں اور ہم جلد ہی ان علاقوں کو ان کے وجود سے پاک کردیں گے اور دیہاتوں کے باشندوں کو آزاد کرا لیں گے۔ اس سے پہلے موجودہ افغان صدر اور
افغانستان کے سابق صدر حامدکرزئی نے بھی کہاتھا کہ داعش گروہ غیر ملکی حمایت سے وجود میں آیا ہے۔
حال ہی میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے بعض صوبے بدخشان، كنر، پكتیكا، غزنی، زابل، سرپل اورہلمند سے فراہ تک کالے جھنڈے لگائے گئے ہیں۔ اور کچھ افراد جو طالبان سے جدا ہوکر حکومت سے مل گئے تھےبہت ساری دلائل کی بنیاد پر داعش کے خفیہ گروپوں میں شامل ہوگئے ہیں۔یہ صورتحال نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ پریشانی کا باعث بھی ہے۔ اس سے پہلے افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر جان کیمبل نے بھی اس کی تائید کی ہے کہ ہمارے پاس کچھ رپورٹس ہیں جن کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی دہشت گرد گروہ داعش کے ہینڈبل نشر ہوتے ہیں اور نئے لوگ غیر معمولی تنخواہیں ملنے کے وعدے کے ساتھ داعش کے گروپوں میں شامل ہورہے ہیں۔
افغانستان کے اخبارات میں آیا ہے کہ داعش نے افغانستان کے کچھ صوبوں جیسے زابل، فراہ اور ہلمند میں اپنی کاروایاں ، یہاں تک کہ اپنی عسکری ٹرینگ کا آغاز کیا ہے۔اور یہ کہا جاتا کہ طالبان کے مختلف گروہوں کے کمانڈر ملک کے مختلف علاقوں میں داعش کی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس نیوزرپورٹ اور داعش کی طرف سے شائع کیئےگئے نقشے کے مطابق اس گروہ نے اپنے زیر تسلط علاقوں کو وسعت دینے کےلئے اپنی پانچ سالہ منصوبہ بندی کا اعلان کیا ہے۔اس منصوبہ کے مطابق ایران، افغانستان اور اردگرد کے ممالک خراسان کے نام سے داعش کے زیر تسلط بیان کئے گئے ہیں ۔انہی خطرات کے پیش نظرافغان طالبان نے داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کے نام ایک خط بھیجا تھا، جس میں دولت اسلامیہ سے افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس خط میں افغانستان کے لیے ’ایک پرچم اور ایک قیادت‘ پر زور دیا گیا ۔طالبان کی قیادت کی طرف سے یہ خط ایک ایسے وقت پر ارسال کیا گیا ، جب افغانستان کے مشرق میں حالیہ ہفتوں کے دوران طالبان اور ان سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایک دھڑے کے مابین شدید خونریز جھڑپیں ہوئی ہیں۔ طالبان سے علیحدگی اختیار کرنے والے مقامی گروپ نے عراق اور شام میں سرگرم جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔ تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ افغانستان میں داعش سے الحاق کرنے والے عسکریت پسندوں کی تعداد طالبان کے مقابلے میں زیادہ نہیں ہے۔
افغان طالبان کی شوریٰ کی طرف سے لکھے گئے اس خط میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی اور اس جہادی تنظیم سے منسلک تمام عسکریت پسندوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ البغدادی کے نام اس خط میں لکھا گیا ہے، ’’امارت اسلامیہ افغانستان دینی اخوت کے مطابق آپ کا بھلا چاہتی ہے اور آپ کے معاملات میں عدم مداخلت کی سوچ رکھتی ہے اور آپ سے بھی اسی کی آرزو رکھتی ہے۔‘‘
اس مکتوب میں مزید لکھا گیاتھا، ’’امارت اسلامیہ افغانستان (افغانستان کو طالبان کی طرف سے دیا جانے والا نام) سابقہ جہادی تجربات اور اپنے معاشرے اور ماحول کو جانتے ہوئے یہ سمجھتی ہے کہ افغانستان میں جہادیوں کی صفوں میں اضافہ نہ تو جہاد ہو گا اور ور نہ اس سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اس لیے بھی کہ افغان معاشرے کی یہ خاصیت رہی ہے کہ یہ ہمیشہ سے ہی اندرونی اختلافات اور جنگوں کا شکار رہا ہے۔ ان اختلافات کا خاتمہ صرف واحد قیادت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘
اسی مکتوب میں اسامہ بن لادن اور کئی دیگر عرب جہادیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی لکھا گیا کہ ان جہادیوں کو افغان طالبان پر کس قدر اعتماد تھا۔ اس تحریر میں افغانستان میں جہادی گروپوں کے اتحاد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان اپنے ملک میں دوسرے ناموں اور جھنڈوں کے تحت کارروائیاں کرنے والے عناصر کی موجودگی کو اپنی جہادی حکمت عملی کے خلاف سمجھتے ہیں۔
افغان اور امریکی حکام کے مطابق فی الحال افغانستان میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کو دولت اسلامیہ کی بہت کم حمایت حاصل ہے لیکن یہ پیش رفت اس لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے کہ داعش اپنے نظریات میں طالبان کی نسبت بہت زیادہ پرتشدد ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی سیاسی کمیٹی کے سربراہ کی طرف سے لکھا گیا یہ خط افغان طالبان کو لاحق پریشانی کا مظہر بھی ہے۔بحرحال تازہ جھڑپوں اور بعض علاقوں پر داعش کے قبضے سے یا بات ثابت ہوگئی ہے کہ افغان حکام اور افغان امور کی پیشنگوئیان درست تھیں اور سیاسی ماہرین کی نگاہ میں اگرچہ افغان حکام نے ننگرہار صوبے کے کچھ علاقے داعش کے کنٹرول میں چلے جانے کی تصدیق نہيں کی ہے لیکن یہ موضوع چند پہلؤوں سے قابل توجہ ہے۔ اول یہ کہ وہ لوگ جو خود کو داعش سے وابستہ سمجھتے ہيں وہ طالبان سے الگ ہونے والے افراد ہيں جو بیرونی عناصر کی جانب سے لالچ دلائے جانے کے باعث طالبان کے خلاف لڑ رہے ہيں۔ ۔ خشخاش کے کھیتوں کو آگ لگائے جانے سے بھی یہ پتہ چلتا ہے کہ طالبان کا حریف گروہ اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ننگرہار پر حملے کے سلسلے میں دوسرا مسئلہ، حملہ آوروں کے درمیان عرب شہریوں سمیت غیر ملکی افراد کا موجود ہونا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ غیرملکی عناصر نے اپنے زیرکنٹرول علاقوں کے عوام کے لئے داعش کے سرغنہ کی جانب سے کچھ امور کا اعلان کیا ہے۔ طالبان پر داعش کے حملے کے سلسلے میں تیسرا موضوع، طالبان اور داعش کے دو گروہوں کے درمیان جھڑپ ہے کہ جو افغانستان کے دوسرے علاقوں میں بھی ہو سکتی ہے اور یہ صورت حال افغانستان کی قومی سلامتی کے لئے خطرناک اور بہت تشویشناک ہے کیونکہ یہ صورت حال ، افغانستان کو ایک بار پھر داخلی جنگ کی آگ میں جھونک سکتی ہے۔