الوقت- ارض حجاز پر حکمران طبقہ دو نسلوں میں بٹ چکا ہے۔ اس ملک میں انٹرنیٹ اور متعلقہ صنعتون کو تیزی سے ترقی ملی ہے لیکن دوسرے شعبوں میں ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سعودی عرب کا شہری حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکتا۔ سعودی عرب میں اگر آمرانہ قوانین نہ ہوں تو غیر سرکاری اور عوامی تنظیموں میں اضافہ ہوجائے گا۔
ارض وحی پر قابض آل سعود کی حکومت میں گرچہ سیاسی پارٹیوں پر پابندی ہے لیکن ایک طرح سے سیاسی ہماہنگي بھی پائي جاتی ہے۔ اسی اور نوے کی دہائي میں النہضۃ الصحوۃ کے اصلاح پسند کارکنوں نے یک گونہ سیاسی ہماہنگي کو فروغ دیاتھا۔ اس تحریک نے دوہزارکی دہائي میں آئینی بادشاہت کا مطالبہ کیا تھا لیکن آل سعود نے اس تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اصلاح پسندوں پر دباؤاور ان کے بہت سے کارکنون کے گرفتار کئےجانے کے باوجود سعودی عرب میں پہلی عوامی انسانی حقوق کی تنظیم حالیہ برسوں میں تشکیل دی گئي تھی اور اس کا نام تھا سیاسی اور شہری حقوق کی انجمن۔ انگریزی میں اسے ACPRA کا نام دیا گيا ہے۔سعودی میں سوشیل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نیز بیرون ملک تعلیم کے لئے اسکالر شپ دئے جانے سے بھی طلباء میں کافی شعور جاگا ہے اور نئي نسل کے سیاسی کارکن سامنے آرہے ہیں جو اپنی عمر کی دوسری یا تیسری دہائي میں ہیں۔
سعودی عرب ایک مدت سے دستخطی مہم چلارہے ہیں اور ان مہموں میں عوام نے جو مطالبات پیش کئے ہیں وہ حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور اصلاحات پر مشتمل ہیں۔ دوہزار گيارہ سے اب تک عوام نے سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے البتہ عوام کے ان سیاسی گروہوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ عوام کی دستخطی مہموں میں زیادہ تر مطالبات انسانی حقوق کے احترام، آزادی بیان، آئینی بادشاہت، سماجی انصاف کو یقینی بنانے نیز امتیازی پالیسوں اور دفتری بدعنوانیوں کے خاتمے اور خواتین کے حقوق کے احترام پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحوہ اسلامی اور اخوان المسلمین جیسے گروہ بھی موجود ہیں جنہیں حکومت نے دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل کررکھا ہے۔البتہ شیعہ اور سنی گروہ نیز غیر اسلامی گروہ بھی موجود ہیں۔ یہ گروہ انٹرنیٹ پر موجود ہیں البتہ سالانہ اجلاس بھی بلاتے ہیں۔
سعودی عرب میں دوہزار تین میں قومی ڈائیلاگ شروع کیا گيا تھا یہ ڈائيلاگ بھی ایک الگ قبائلی طرز پر شروع کیا گيا تھا۔ یہ ڈائیلاگ سنٹر ایک دوسرے کے نظریات سے واقف ہونے نیز سارے ملک میں گفتگو کا نیٹ ورک قائم کرنے کا مفید تجربہ ثابت ہوا ہے۔ سعودی عرب میں اگرچہ قومی ڈائیلاگ سنٹر کی کارکردگي ضعیف رہی ہے لیکن کم از کم اس میں کچھ لوگ شریک تو ہوتے ہیں اور آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنی تشویشوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ واضح رہے سعودی عرب میں سوشیل میڈیا پر لوگوں کا جمع ہونا اور گھروں میں میٹنگ کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور سیاسی پارٹیوں کا نعم البدل شمار ہوتا ہے۔
آل سعود کی حکومت کے خلاف عوامی مخالفت سے ارض وحی پر قابض آل سعود کی حکومت نے سیاسی کارکنوں اور اصلاح پسندوں پر دباؤ بڑھا دیا۔آل سعود کے کارندوں نے سیاسی انجمنوں کے بعض کارکنوں اور شہری حقوق کے لئے کام کرنے والے بعض رہنماؤں کو گرفتار کرلیا ہے۔ دوہزار چودہ میں انسداد دہشتگردی کے قانون کی منظوری کے بعد بہت سے جلسے، نشستوں اور گروہوں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد ہوگئي ہے۔ البتہ اس قانون کی روسے بیرونی افراد سے سعودی باشندوں کی نشستوں اور جلسوں پر بھی پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ انسداد دہشتگردی قانون نے وزارت داخلہ کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے۔ اب اس وزات خانہ کے کارندے عدالت کے حکم کے بغیر ہی کسی کو بھی گرفتار کرسکتے ہیں۔
مجلس شوری
سعودی عرب میں مجلس شوری اہمیت رکھتی ہے لیکن اس کے پاس ايگزیکیٹیو اختیارات نہیں ہیں۔ مجلس شوری کی خاتون اراکین نے انسانی حقوق، شہری حقوق، خواتین کے حقوق، اور خواتین کو ڈرائيوينگ کرنےکے حق کے سلسلے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔مجلس شوری کے رکن کوئي بھی بل یا کسی قانون کی اصلاح کے لئے مجلس کے سربراہ کو درخواست دے سکتے ہيں اور مجلس کا سربراہ یہ درخواست شاہ تک پہنچاتا ہے۔ مجلس شوری کی رکن خواتین کا کہنا ہےکہ ملک میں کسی بھی طرح کی تبدیلی خود سسٹم کے اندر اور بتدریج آنی چاہیے۔
قانون کی اصلاح کے مطالبات
سعودی عرب کے عوام نے آئین کی تدوین کی ضرورت پر بارہا تاکید کی ہے سعودی عوام اور سیاسی گروہ آئينی بادشاہت کے خواہاں ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہيں کہ اصلاحات کا عمل تدریجی ہونا چاہیے تا کہ اس طرح سے اتفاق رائے حاصل ہوسکے اور ملک کے استحکام کو نقصان نہ پہنچے۔ بہت سے لوگوں کا یہ کہنا ہےکہ پہلے قدم میں مجلس شوری کے ستر فیصد اراکین کے لئے الیکشن کرایاجائے اور اس شوری کو قانون سازی کا اختیار دیاجائے۔ کچھ برسوں کے بعد اس شوری کے تمام اراکین کے لئے انتخابات کرائے جائيں اس کے بعد آئين کی تدوین کی جائے۔ سعودی عرب میں اگر یہ راہ اختیار کی جائے تو سعودی عرب ایک ملک کہلائے گا۔ اس صورت میں سعودی عوام یہ احساس کریں گے کہ وہ ایک قوم ہیں۔ اس وقت بہت سے لوگ خود کو ملک سے نہیں بلکہ قبیلے سے وابستہ سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب میں عام آدمی کو تیل کی دولت کا حصہ نہیں ملتا اور نہ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ آ ل سعود کے کسی فیصلے کےبارے میں اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔
اقتصادی لحاظ سے بے چینی
آل سعود کی حکومت نے تعلیمی شعبے میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے لیکن اس کے باوجود بے روزگاری سعودی عوام کا ایک گمبھیر مسئلہ بنی ہوئي ہے۔ اس ملک میں پرائیوٹ سیکٹر ابھی ابتدائي مرحلے میں ہے۔ سعودی عرب کے بیس فیصد عوام پرائيویٹ سیکٹر میں کام کرتے ہیں جبکہ حکومت کا ھدف ہےکہ پرائیویٹ سیکٹر میں تیس سے چالیس فیصد عوام کو روزگار فراہم کیا جاسکے۔
سعودی عرب میں زندگی کا خرچ پورا کرنا اور گھر کا مالک ہونا بڑاکام ہے۔ دوہزار بارہ سے دوہزار چودہ تک زندگی کی اخراجات میں تیس فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری کامسئلہ حل کرنے کےلئے حکومت نے گذشتہ دس سے پندرہ برسوں میں بیرونی مزدوروں کو ملک سے نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے لیکن اس کا کوئي خاص فائدہ نہیں ہوا ہے کیونکہ بیرونی مزدور کم اجرت پر زیادہ کام کرنے کو تیار ہیں اور سعودی مزدور کے مقابل بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر ممالک جیسے دبئی میں آزاد ماحول اور تجارتی سہولتوں کی وجہ سے سعودی جوان ملک سے باہر سرگرم عمل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔
تشخص اور سیاسی حیثیت
سعودی عرب میں لوگ عام طور سے یہ سوچتے ہيں کہ ان کی کوئي قومی شناخت نہيں ہے اور یہ ارض وحی کے باشندوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ آل سعود نے اس کی شناخت کو مسخ کردیا ہے۔ ارض حجاز پر مقامی، علاقائي اور قبائلی تشخص روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اگرچہ آل سعود کی حکومت قومی اتحاد کا لفظ استعمال کرتی ہے لیکن اس نے علاقائي اور مقامی تنوع کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ سعودی عرب میں عوام کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہے کہ وہ کس کے وفادار ہیں اپنی مادر وطن کے یا آل سعود کے۔ آل سعود کی طرف بہت کم لوگ رجحان رکھتے ہیں۔ آل سعودکی کوششوں کے باوجود عوام اپنے قبیلوں سے وفادار ہیں۔ آل سعود سے عدم وفادارای کے بہت سی وجوہات ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ بیس ملین کی آباد کا ساٹھ فیصد جوان تشکیل دیتے ہیں ان کا سوچنا ہےکہ آل سعود نے قومی ثروت و دولت کی تقسیم میں بے حد تعصب اور امتیازی سلوک سے کام کیا ہے۔ سعودی عرب گرچہ ایک مالدار ملک ہے لیکن اس میں ہاوسنگ کا مسئلہ نہایت سنگین ہے۔ آل سعود ملک کے مسائل کے بارے میں سارے فیصلے کرتی ہے اور عوام کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ عوام کے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے میں قبیلہ سب سے آگے آگے رہتا ہےجس کیوجہ سے ظاہر سی بات ہے وہ اس کے ہی وفادار ہوتے ہیں۔ ملک کے ہر شعبے میں آل سعود کی آمریت اور امتیازی سلوک کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔