الوقت- یورپی یونین کے ملکوں بالخصوص فرانس میں امریکہ کی جاسوسی عالمی میڈیا بالخصوص یورپی میڈیا کی شہ سرخیوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جس طرح سے امریکی انٹلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ جرمن انٹلیجنس کے تعاون پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اسی طرح یورپی ملکوں میں امریکی جاسوسی سرگرمیوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اس واقعے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو بھی نہیں بخشتا۔
ویکی لیکس کی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے فرانس کے تین سابق صدور کی دوہزار چھے سے دوہزار بارہ تک جاسوسی کی تھی۔ فرانس ظاہر ہے امریکہ کی اس بے وفائي پر شدید طیش میں مبتلا ہے۔ فرانس نے امریکہ کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ اخبار لبریشن اور میڈیا بارٹ کی رپورٹوں کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی ٹاپ سیکریٹ پانچ دستاویزات سے یورپی ملکوں کے خلاف امریکی جاسوسی کی بات معلوم ہوتی ہے۔ ویکی لیکس کی دستاویزات کے مطابق دوہزار بارہ میں فرانسوا اولان نے یونان کے یوروزون سے نکلنے کے نتائج کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس بلانے کی ھدایت دی تھی۔ویکی لیکس کے مطابق اولان نے یہ اجلاس جرمن چانسلر کو اطلاع دئے بغیر اور جرمن حزب اختلاف کی پارٹی سوشیل ڈیموکریٹ کے تعاون سے بلایا تھا۔ دوسری طرف سے بعض دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی انٹلیجنس کے ساتھ تعاون کرنے کی وجہ سے جرمن انٹلیجنس کو رسوائي کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ان رپورٹوں سے پتہ چلتا ہےکہ جرمن انٹلیجنس نے یورپی ملکوں بالخصوص ایربس کمپنی کے خلاف جاسوسی کرنے کےلئے امریکی جاسوس تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
یورپی ملکوں کےسامنے چیلنجر
یورپی ممالک کو امریکی انٹلجنس ایجنیسوں نے قربانی کا بکرا بنایا ہے۔ یہ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ہے۔یہاں پر جس نکتے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہےکہ یورپی ممالک اپنے انٹرنیٹ رابطوں کے لئے امریکی سرورز سے استفادہ کرتے ہیں۔
اپنے اتحادیوں کے خلاف جاسوسی امریکہ کی تاریخی حقیقت۔
جرمنی ان ملکوں میں ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ناسا اور برطانیہ کے کنٹرول میں ہیں۔ جرمن انٹلیجنس نے دوہزارچودہ میں اعلان کیاتھا کہ برلین میں امریکی سفارتخانے نے جاسوسی کے آلات نصب کئے ہیں۔ یہ رسوائي اس قدر بھیانک تھی کہ برلین نے بی این ڈی کے ایجنٹوں کو جاسوسی کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے باہر سے بلایا تا کہ امریکہ کے خلاف قانونی چارہ جوئي کی جاسکے۔
واضح رہے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی سے وابستہ ناسانے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کے ذاتی ٹیلیفوں کی جاسوسی کی تھی۔ جرمن میڈیا نے امریکہ کی اس جاسوسی کی کھل کر مذمت کی تھی۔ امریکہ اور جرمنی کے درمیان جاسوسی کے بہت سے واقعات پیش آئے ہیں جن سے دونوں ملکوں کو رسوائي اٹھانی پڑی ہے، البتہ ان رسوائيوں میں دونوں ملکوں کی جاسوسی ایجنسیاں ملوث رہی ہیں۔
قابل توجہ ضروری امور
جو چیز امریکہ اور یورپی ملکوں کو متحد کرتی ہے وہ جھوٹ پر استوار مفادات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ماہرین کی نظر میں امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات سفارتی اورسیاسی لحاظ سے کسی اہمیت کے حامل نہیں ہیں کیونکہ یہ تعلقات باہمی احترام پر مبنی نہیں ہیں بلکہ روس کے خلاف دشمنی ایک مشترکہ امر ہے جو انہیں ایک پلیٹ فارم پر لے آتا ہے۔ اسی وجہ سے یورپی ممالک امریکہ سے دبتے ہیں اور اسکی منفی پالیسیوں اور توہین آمیز اقدامات سے چشم پوشی کرلیتے ہیں۔
امریکہ کی جاسوسی کاروائيوں کا تعلق امریکیوں کی ذہنیت سے ہے۔ آج جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے اور انہیں اس طرح کے منصوبوں میں شامل کرتا ہےجو امریکہ کے مفادات کو پورا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی پراگمیٹیک روش پر عبور رکھتے ہیں اور یورپیوں کو ایسے مسائل میں مبتلا کردیتے ہیں اور ان کے خلاف جاسوسی کرکے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک طرف سے امریکہ یورپ کو ڈراتا بھی ہے اور دوسری طرف سے اس کے خلاف جاسوسی بھی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح یورپی ممالک امریکہ کے تابع بن جاتے ہیں اور امریکہ ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔