الوقت- دنیا پر مسلط عالمی سامراج کے شاید لاشعور میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ اپنے زیر تسلط ممالک کو ایسے دباؤ میں رکھا جائےتاکہ اسکے اندر آذادی اور حریت کا جذبہ ہی پیدا نہ ہووہ محتلف بہانوں سے اپنے ماتحت یا مخالفوں کو ایسے مسائل میں الجھائے رکھتا ہے تاکہ وہ اپنی ہی مصیبت میں گرفتار رہیں اور انہیں مخالف کے خلاف کچھ کرنے کا موقع میسر نہ ائے یا وہ اپنے اندر ہی اندر الجھے رہیں تاکہ بیرونی قوتوں کے خلاف کوئی بڑا قدم نہ اٹھا سکیں۔عالمی سامراج کے اس حربے میں ایک انسانی حقوق کا حربہ ہے۔انسانی حقوق کی سامراجی تاریخ کا اگر مغربی نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد نمایاں ہوکر سامنے آیا ۔اس حربے کے سامنے آنے اور اسکا تجربہ تین نسلیں دیکھ چکی ہیں تاہم مغرب اس حوالے سے کوئی ایسے قابل قدر کارنامہ نہیں پیش کرسکا ہے اور انسانی حقوق کا دعوی کرنے والے ممالک نے اپنے ملکوں کے علاوہ دوسرے ممالک مین انسانی حقوق کی جو پامالی کی ہے ان ملکوں اور قوموں سے کہیں زیادہ ہے جہاں انسانی حقوق کو آئینی اور قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے البتہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں نے اس حربے کو اپنے مخالفوں خاص کر اسلام کے خلاف پوری شدت سے استفادہ کیا حال ہی میں امریکہ کی وزارت خارجہ نے مختلف ملکوں کے حوالے سے انسانی حقوق سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں ویتنام ، کیوبا ، میانمار اور اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے 2014 میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ جاری کرنے کے موقع پر اپنی تقریر میں یورپ،ایشیا اور مشرق وسطی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایران کا نام نہیں لیا تھا لیکن اس بار کی سالانہ رپورٹ میں ایران پر اپنےہی شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ ایسے میں سامنے آئی ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق عالمی معیار کو ملحوظ خاطر رکھے۔ اس لئے کہ امریکہ نے اپنی اس رپورٹ میں کئی ممالک پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے عہدیدار ایڈوٹی اکیوی((adotei akwei نے امریکہ کی جانب سے کئی ممالک پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جس قسم کے الزامات امریکہ نے دوسرے ممالک پر عائد کئے ہیں امریکہ کو خود اس کی رعایت کرنی چاہئے ان کے کہنے کے مطابق امریکہ کے بہت سے اقدامات ان معیارات کے مطابق نہیں ہیں جن کا ذکر اس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کیا ہے۔
درحقیقت امریکہ جوہمیشہ سے انسانی حقوق کی حمایت کے دعوے کر تا ہے عالمی سطح پر سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
امریکہ کی جیلوں میں اس وقت دس لاکھ سے زائد قیدی ہیں اور ان میں سے سیاہ فاموں اور لاطینی نژاد قیدیوں سے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملکوں کے خلاف شروع کی جانے والی جنگیں اور دھشتگردی کے نام پر گوانتانامو یا عراق میں ابو غریب جیل یا پھر افغانستان میں بگرام ہوائی بیس کی خطرناک ترین جیل میں قیدیوں کو دی جانے والی ایذائیں اور انسانیت سوز اقدامات انسانیت کے نام پر امریکہ کے سیاہ کارنامے ہیں۔ انسانیت کے خلاف امریکہ کے اقدامات یہیں پر ختم نہیں ہوتے اس لئے کہ امریکہ کے خفیہ ادارے اپنے ہی شہریوں کی جاسوسی کرتے ہیں اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس پر سخت احتجاج بھی کیا ہے ۔ امریکہ نے اسی طرح دھشتگردی کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر عراق اور افغانستان میں ان ممالک کے عوام کا قتل عام کیا ۔ مجموعی طور پر امریکی پولیس کی جانب سے امتیازی سلوک روا رکھنے اپنے اور دیگر ممالک کے باشندوں کے خلاف جاسوسی کرنے، امریکی جیلوں کی صورتحال، قیدیوں کو شکنجے دینے ، امریکہ میں پھانسی کا طریقہ کار، امریکی ڈرون حملےاور دھشتگردی کے نام پر واشنگٹن کے اقدامات واضح اور کھلم کھلا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شمار ہوتی ہیں ۔
اس قسم کی صورتحال میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اس ملک کے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امتیازی رویہ، انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کے ساتھ تعلیم کے شعبے میں سماجی سطح پر یا پھر کام کاج کے سلسلے میں جاری امتیازی سلوک اور سیاہ فاموں کے خلاف تشدد اور اس ملک کی پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام باشندوں کا قتل روز کا معمول بن گیا ہے اور اس پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے ۔ در حقیقت امریکی معاشرے میں سیاہ فام باشندوں کے خلاف سخت اور امتیازی رویہ اورغیر انسانی سلوک امریکہ کا خاصہ رہا ہے اور یہ موضوع ہمیشہ اس ملک کے ایک اہم مسئلے کے طور پر رہا ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں اور جس نےانسانی حقوق کی دھجیاں اس طرح اڑائیاں ہیں کہ اس سلسلے میں امریکہ کے پاس کوئی قانع کندہ جواب نہیں ہے۔