الوقت- ایران اور مغربی ممالک کے درمیان ایران کے ایٹمی مسئلے پر مذاکرات کا جو سلسلہ جاری ہے اس پر ایران کے اندر باہر دونوں حلقوں میں مختلف قسم کی باتیں چل رہی ہیں کوئی ایران کی موجودہ حکومت کو مغرب نواز کہہ رہا ہے اور کوئی رہبر انقلاب کو ان مذاکرات کا سخت مخالف قرار دے رہا ہے ۔کسی طرف سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ ایران نے اقتصادی پابندیوں سے تنگ آکر امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہین اور انقلاب اپنے دیرینہ اور بنیادی انقلابی نظرئيے سے دور ہوتا جارہا ہے ان تمام سوالوں کا جواب رہبر انقلاب کی حالیہ تقریر میں بآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان مرضیہ افخم نے کہا ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی کے رہنما ارشادات ملک کی خارجہ پالیسی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔تہران میں اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے مرضیہ افخم کا کہنا تھا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ روز اعلی حکام کے ساتھ ملاقات میں ایٹمی معاملے کے حوالے سے جو ہدایات دی ہیں وہ قابل قدر اور مذاکراتی ٹیم کی حمایت کی مظہر ہیں۔ انہوں نے ایران اور پانچ جمع ایک کے درمیان ممکنہ ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں کہا کہ ایران کی مذاکراتی ٹیم تمام معاملات پر بات چیت کر رہی ہے اور ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بات چیت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کی ترجمان کہا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے جن ریڈلائنوں کی تشریح فرمائی ہے وہ مذاکرات میں انتہائی مددگار ثابت ہوں گی اور ایران کی مذاکراتی ٹیم ان ریڈلائنوں کو سامنے رکھ کر مذاکرات میں حصہ لے رہی ہے۔ مرضیہ افخم نے ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان ممکنہ ایٹمی معاہدے کے مسودی کی تیاری کے بارے میں کہا کہ آخری اقدامات انتہائی فیصلہ کن اور سخت ہیں اور اس وقت انتہائی پیشہ ورانہ سطح پر مذاکرات کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ ایک اچھے معاہدے کی صورت میں پوری دنیا اس معاہدے کا احترام کرے گی۔اسلامی جمہوریہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے درمیان تقریبا دو سال سے ایٹمی مذاکرات چل رہے ہیں، اب یہ مذاکرات حساس مرحلے میں پہنچ گئے ہیں البتہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کی مذاکراتی ٹیمیں اب بھی مذاکرات اور حتمی ایٹمی معاہدے کے مسودے کی تیاری میں لگي ہوئي ہیں۔ ایسے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کی جانب سے ان اصولوں اور ریڈلائنوں کی یاد دہانی سے جنہیں فریقین کو حتمی معاہدے کا مسودہ تیار کرتے ہوئے مد نظر رکھنا چاہیے مذاکرات آسان ہوسکتے ہیں .ادھر ایٹمی مذاکرات کے موقع پر مغربی حکام بالخصوص امریکیوں کے متضاد اور مبھم بیانات کا سلسلہ جاری ہے، یہ بیانات بعض اوقات مذاکرات کے اصولوں سے اس قدر متضاد ہوتے ہیں کہ حتمی معاہدے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں یا اس کے حصول کو مشکل بناسکتے ہیں۔ مغربی حکام کے مقابل اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف بالخصوص گذشتہ دو برسوں کے مذاکرات کے موقع پر نہایت متوازن رہے ہیں۔ ایران کے موقف رہبر انقلاب اسلامی کے بیان کردہ اصولوں پر استوار ہیں۔رہبرانقلاب اسلامی نے اعلی حکام سے حالیہ ملاقات میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ طویل مدت تک بعض ایٹمی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور ایٹمی تحقیقاتی کاموں کا بند کرنا ہمارے لئے ناقابل قبول ہے اور ہم اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ پابندیاں اسی وقت ختم ہوجانی چاہیں جب مجوزہ معاہدے پر دستخط ہونگے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے یہ بھی فرمایا کہ غیر مشروط معائنے اور ایٹمی سائنس دانوں سے انٹرویو نیز فوجی سائٹوں کے معائنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گي۔ رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ ہم ایٹمی سرگرمیوں کےبارے میں دس بارہ سال کی مدت تسلیم نہیں کریں گے بلکہ ہم نے اپنے مد مقابل کو اس مدت سے آگاہ کردیا ہے جو ہمارے مد نظر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمام اقتصادی مالی اور بینکاری نظام پر عائد پابندیاں چاہے وہ سلامتی کونسل کی طرف سے ہوں یا امریکی کانگریس کی طرف سے یا پھر امریکی حکومت کی طرف سے ہوں مجوزہ حتمی معاہدے پر دستخط کے موقع پر ختم ہوجانی چاہیں اور بقیہ پابندیاں بھی معقول وقفے سے ہٹادی جانی چاہیں۔رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ امریکیوں کے مطالبات کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کاھدف ایران کی ایٹمی صنعت، اور ایران کے ایٹمی تشخص کی بیخ کنی کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکی حکومت ایران کے ایٹمی پروگرام کو ایک کھوکھلے اور غیر مفید پروگرام میں تبدیل کرنا چاہتی ہے لیکن ایرانی حکام ایک اچھے معاہدے یعنی منصفانہ، باعزت اور قومی مفادات اور مصلحتوں پر مبنی معاہدہ چاہتے ہیں۔