الوقت- عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے تہران کا دوسرا دورہ کیا ہے۔ ان سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ نوری مالکی کی سیٹ پر براجمان ہونے کے بعد اتحاد کو مستحکم کرکے اندرونی مسائل حل کرلیں گے اور داعش کاخاتمہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلیں گے۔ حیدر العبادی ان توقعات پر پورے نہيں اترے اور داعش کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ان کے سامنے بے شمار چیلنجز ہیں جن میں کچھ ایسے بھی مسائل ہیں جو بغداد حکومت کے بس سے باہر ہیں۔ گذشتہ ایک برس میں عراق کی فوج اور عوامی رضا کار فورس نے تکریت، صلاح الدین، سعدیہ، جرف الصخر اور دیگر متعدد علاقوں دہشتگرد گروہ داعش سے آزاد کرالیا ہے۔ دراصل ان علاقوں میں فوج اور عوامی کاروں کی کامیابی کا راز یہ ہےکہ عوامی رضاکاروں نے فوج کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ صرف صوبہ الانبار میں عوامی رضاکاروں کی عدم موجودگي کی وجہ سے داعش کو کامیابی ملی۔
عراقی حکومت کے لئے عوامی رضاکاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا اور دہشتگردی سے مقابلے کے اسلامی جمہوریہ ایران کے تجربے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ایران نے عوام کو متحد کرنے اور دہشتگردی کی بیخ کنی میں نہایت کامیاب کارکردگي کا ثبوت دیا ہے۔ ایران نے ان محاذوں پر کامیابی ایسے حالات میں حاصل کی ہے کہ اسے ہر طرف سے خطروں کا سامنا تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران ان محاذوں پر کامیاب ہونے کے نتیجے میں علاقے کا ایک اہم پرامن اور مستحکم ملک کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ ان حقائق کے مد نظر حیدرالعبادی کے دوسرے دورہ تہران کو ایران سے مدد طلب کرنے کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ داعش کے خلاف تہران میں یہ کنٹرول روم ایسے حالات میں قائم ہورہا ہےکہ اگر علاقے کے بعض ملکوں کی جانب سے داعش کی ہمہ گير مدد نہ کی جاتی تو یہ تکفیری دہشتگرد گروہ دسیوں ہزار دہشتگردوں کی مدد سے دو ملکوں کے پیمانے پر دہشتگردانہ کاروائياں نہیں کرسکتا تھا۔
داعش کے مالی ذرائع کیا ہیں؟
داعش کو ہتھیار اور فوجی سازو سامان اور گولہ بارود کہاں سے ملتا ہے؟
کونسے ممالک داعش کو رسد پہنچانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
داعش میں دیگر ملکوں کے عناصر کس طرح سے عراق و شام آتے ہیں؟
داعش تنظیم کس طرح سے غصب شدہ تیل فروحت کرتی ہے؟
ان سوالوں کا جواب کوئي مشکل نہیں ہے بس اتنا کہا جاسکتا ہےکہ اگر سعودی عرب، ترکی قطر اور صیہونی حکومت کی حمایت نہ ہوتی تو داعش ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔
یاد رہے اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ عراق کی حکومت اور قوم کا ساتھ دیا ہے اور یہی کوشش کی ہےکہ عراقی قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی جو سازشیں ہورہی ہیں ان کا ڈٹ کا مقابلہ کیا جائے۔ رہبر انقلاب اسلامی سے حیدر العبادی کی حالیہ ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی کی بیانات سے ایران کی یہ پالیسی صاف ظاہر ہے۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں فرمایا تھا کہ دشمنوں کی سکیورٹی اور انٹلیجنس ایجنسیوں کی سازشوں کا ایک ھدف عراق کی قومی اور سیاسی وحدت کے ارکان کو تباہ کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تفرقہ انگيز سازشوں کے مقابل بڑی ہوشیاری سے عمل کرنا چاہیے اور شیعہ، سنی کرد اور عرب کے اتحاد کو تباہ کرنے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔
آج یہ بات سب پر واضح ہوگئی ہےکہ عراق میں داعش کے خلاف نام نہاد عالمی اتحاد صحیح راہ پر گامزن نہیں ہے۔ امریکی اتحاد کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے واضح ہوتا ہے کہ اس کے پاس داعش کے خلاف نہ کوئي اسٹراٹیجی ہے اور نہ ہی عزم۔ اگر امریکی اتحاد داعش کے خلاف لڑنے کا ارادہ رکھتا تو اسکی فوجی توانائیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا تھا کہ وہ چند دنوں میں داعش کو تہس نہس کرسکتا تھا۔ داعش یقینا مغرب کی پالیسیوں کے تحت آگے بڑھ رہی ہے اور امریکی اتحاد نے محض چند موقعوں پر دکھاوے کےلئے اس کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔ امریکہ داعش کو استعمال کرکے صیہونی حکومت کے خلاف جاری مزاحمت کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور داعش کو صیہونی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والے علاقے میں پروان چڑھانا چاہتا ہے اور اگر کہیں داعش امریکہ کے اشاروں کے مطابق کام نہیں کرتی ہےتو نام نہاد امریکی اتحاد اس کے پر حملے کرکے اسے ٹھیک کردیتا ہے۔ واضح رہے داعش کو شکست دینا صرف اور صرف اتحاد کے سہارے ہی ممکن ہے شام عراق لبنان اور ایران جب تک متحد نہیں ہوجاتے داعش کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اس نکتے پر تاکید فرمائي ہے۔