الوقت- امریکہ نے ایک ایسے وقت ایران پر دہشتگردی کے حمایت کا بے بنیاد الزام لگایا ہے کہ ایران نہ صرف سب سے بڑھ کر دہشگردی کا مقابلہ کررہا بلکہ ماظی میں اور اب بھی یہ ملک دہشتگردوں کے خصوصی نشانے پر ہے ۔امریکی حکومت نے دنیا میں دہشتگردی کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ایران نے دوہزار چودہ میں بھی دہشتگردی کی حمایت جاری رکھی تھی۔ امریکی رپورٹ میں ایران پر الزام لگایا گيا ہے کہ ایران، غزہ میں بعض گروہوں، حزب اللہ لبنان، عراق میں بعض گروہوں نیز پورے مشرق وسطی میں ان گروہوں کی حمایت کررہا ہے جنہیں امریکہ دہشتگرد قراردیتا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی اس نام نہاد رپورٹ میں ایک مضحکہ خیز بات یہ دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایران نے داعش کے مقابلے میں عراق کے جن شیعہ مسلح گروہوں کی مدد کی ہے اسے بھی امریکہ نے دہشتگردی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ایران نے عراق کے بعض دہشتگرد گروہوں کی امداد بڑھادی ہے۔
دہشتگردی کے بارے میں امریکہ کی رپورٹ ایرانو فوبیا کی ایک کڑی ہے۔یاد رہے امریکہ نے ایرانو فوبیا کو ایٹمی مسئلہ، انسانی حقوق اور دہشتگردی کی حمایت کے الزامات پر استوار کررکھا ہے۔ امریکہ نے گيارہ ستمبر کے دہشتگردانہ حملوں کے بعد دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے خود سرانہ اور یکطرفہ طور پر فوجی منصوبے بنا کر، اپنے اھداف حاصل کرنے کے لئے ان پرعمل کیا ہے اور افغانستان و عراق پر امریکہ کا قبضہ بھی امریکہ کے ان ہی فوجی اھداف کا ایک نمونہ ہے۔ افغانستان اور عراق پر امریکہ کے حملوں میں نہ صرف لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے ہیں بلکہ دسیوں لاکھ افراد بے گھر بھی ہوئے، اسکے علاوہ امریکہ کی ان ہی پالیسیوں کے نتیجے میں علاقے میں تکفیری دہشتگردی نے سر اٹھایا ہے۔ تباہی و بربادی کے اس عمل کی ایک کڑی شام ہے جہاں امریکہ کی شروع کی ہوئي، پروان چڑھائي ہوئي اور حمایت یافتہ دہشتگردی جاری ہے۔ پنٹاگون کی ڈی کلاسیفائيد دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے بعض پٹھو ممالک نے کس طرح تکفیری دہشتگردوں کی مدد کی ہے اور ان خونخوار دہشتگردوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے انہیں کس طرح بھرپور طرح سے ہتھیار، پیسہ اور ٹریننگ دی ہے۔
عراق میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں شام میں سرگرم عمل تکفیری دہشتگردوں کی ٹریننگ، ان ہی علاقوں میں مشکوک پروازں کے ذریعے ان کے لئے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں اور پیشرفتہ مواصلاتی آلات کی ترسیل، دنیا کے خونخوار ترین تکفیری دہشتگردوں کے لئے امریکہ کی امداد کے نمونے ہیں۔
امریکہ دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کےدعوؤں اور داعش کے خلاف نام نہاد عالمی اتحاد کی تشکیل کے باوجود ترک حکومت کے ساتھ مل کر شام کے مخالف دہشتگردوں کو ٹریننگ دے رہا ہے۔ امریکی کانگریس نے بھی ایران کے خلاف کام کرنے والے دہشتگرد گروہوں کی حمایت کے لئے بجٹ مختص کیا ہے۔ امریکہ دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے بعض ملکوں کو نشانہ بنا کر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف مثبت کردار ادا کررہا ہے لیکن امریکہ کی یہ پالیسیاں متضاد اور سب پر عیان ہیں۔ امریکہ درحقیقت دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے، دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اتحاد بنا کر اور اس طرح کی رپورٹیں پیش کرکے علاقے میں طویل مدت تک رہنا چاہتا ہے۔ اسی غرض سے امریکہ نے ایرانو فوبیا اور شیعہ فوبیا کابھی سہارا لیا ہے اور چاہتا ہے کہ ایٹمی مذاکرات میں ایران پر زیاد سے زیادہ دباؤ ڈال سکے۔ دہشتگردی کی حمایت کے بارے میں امریکی وزارت خارجہ کی نام نہاد رپورٹ اور ایران پر دہشتگردی کی حمایت کے الزامات لگانے سے امریکہ کا مقصد اپنے سامراجی اھداف حاصل کرنا ہےورنہ آج یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ دنیا میں دہشتگردی کی ابتدا، اسکی حمایت اوراسے پروان چڑھانے میں سب سے نمایاں کردار امریکہ کا ہے اورامریکہ نے اسے ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے ۔
یمن: فوجی اور سیاسی سطح پر آل سعود کی شکست
جینوا میں یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کے وفد کے سربراہ حمزہ الحوثی نے آل سعود کو امن مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار قراردیا ہے۔ حمزہ الحوثی نے جمعرات کی رات جینوا مذاکرات کے اختتام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آل سعود نے جینوا مذاکرات کو ناکام بنانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل و ذرائع استعمال کئے ہیں۔ انصاراللہ کے اس سینئر رہنما نے کہا کہ انصاراللہ نے نیک نیتی کا ثبوت پیش کیا ہے اور وہ جنگ بندی کی خواہاں ہے لیکن آل سعود نے جینوا مذاکرات میں متعدد شرطیں لگا کر انہیں ناکام بنانے میں کوئي کسر نہیں چھوڑی۔ واضح رہے یمن کے مختلف گروہوں نے جینوا میں پانچ دنوں تک مذاکرت کئے ہیں لیکن افسوس کہ یہ مذاکرات ناکام رہے۔ ان مذاکرات میں بعض ایسے گروہ بھی شامل تھے جنہیں تحریک انصاراللہ کی حمایت حاصل نہيں تھی۔ جینوا مذاکرات میں ہرچند کوئي کامیابی حاصل نہیں ہوئي لیکن آئندہ مذاکرات کی امید بھی ختم نہیں ہوئي ہے۔ سعودی عرب نے بھرپور کوشش کی تھی کہ تحریک انصاراللہ مذاکرات سے قبل اقوام متحدہ کی قرارداد بائيس سولہ کو پیشگي شرط کے طور پر تسلیم کرلے۔سعودی عرب اور اسکے پٹھوؤں نے سابق مفرور صدر عبد ربہ منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں واپس لانے کی بھی کوشش کی تھی۔سعودی عرب نے یمن کے بارے میں کسی بھی طرح کے مذاکرات کے لئے منصور ہادی کی اقتدار میں واپسی کی شرط بھی لگار کھی ہے۔ سعودی عرب نے تین مہینوں سے یمن کے نہتے عوام پر وحشیانہ حملے شروع کررکھے ہیں لیکن اسے اب تک کوئي بھی ھدف حاصل نہیں ہوا ہے۔ اسی وجہ سے آل سعود یمن کے بحران کو حل کرنے کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں بھی کھڑی کررہی ہے۔ بنیادی طور پر سعودی عرب کی جارحیت کا مقصد یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کو ختم کرنا ہے لیکن تحریک انصاراللہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہوچکی ہے اور اسکی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تحریک انصاراللہ یمنی عوام کی حمایت سے دو محاذوں پر یعنی ایک طرف سے آل سعود کے پالتو دہشتگردوں اور دوسری طرف سے آل سعود اور اس کے پٹھو اتحادیوں کی جارحیت کا مقابلہ کررہی ہے۔ تحریک انصاراللہ کو یمن کےعوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔یمن پر آل سعود کی وحشیانہ جارحیت کے باوجود تحریک انصاراللہ کی بڑھتی ہوئي مقبولیت سے ارض وحی پر قابض حکمرانوں کی نیندیں اڑ گئي ہیں اور اس کی نظر میں انصاراللہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا فوجی لحاظ سے ایک اور شکست ہے۔
سعودی عرب اب جبکہ یمن میں فوجی اور سیاسی لحاظ سے شرمناک شکست کھاچکا ہے لھذا اپنے تخریبی اقدامات پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک بار پھر اسلامی جمہوریہ ایران پرعلاقے میں مداخلت کا الزام لگارہا ہے۔ آل سعود کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جینوا مذاکرات کی ناکامی کے بعد رشیا ٹوڈے سے گفتگو کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ایران
یمن، شام، لبنان اور عراق میں مداخلت کررہا ہے۔
سعودی عرب ایسے حالات میں اسلامی جمہوریہ ایران پر بعض عرب ملکوں میں مداخلت اور دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگا رہا ہے کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ سعودی عرب اپنے پٹرو ڈالروں سے ہی شام و عراق اور یمن میں تکفیری دہشتگردوں کی مدد کررہا ہے۔ اس کےعلاوہ ویکی لیکس کے سربراہ نے مشرق وسطی بالخصوص لبنان و عراق میں آل سعود کے تخریبی کردار سے پردہ اٹھایا ہے۔ یہ امر بھی ساری دنیا پر واضح کردیتا ہے کہ آل سعود مختلف ملکوں میں تکفیریی دہشتگردوں کی مدد کررہی ہے اور یہ خونخوار دہشتگرد آل سعود کی حمایت سے ہی اسلام کا چہرہ مسخ کرکے پیش کررہے ہیں۔ اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی غرض سے دوسروں پر الزام لگانے سے کوئي بھی اس بات پر یقین نہیں کرے گا کہ یمن میں آل سعود کامیاب ہے اور نہ ہی وہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی سفارتکاری کو ہی کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔
عراق عوامی رضاکاروں کی پیش قدمی
عراق کے حالات سے صاف ظاہر ہے کہ عنقریب فوج اور عوامی رضاکاروں کو تکفیری دہشتگردوں پر بڑی فتح ملنے والی ہے۔ عراق کے صوبہ صلاح الدین کی سکیورٹی کمیٹی کے نائب سربراہ خالد الجسام نے کہا ہےکہ ہم بہت جلد اس صوبے کی مکمل آزادی کا علان کرنے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبہ صلاح الدین میں صرف الشرقاط اور صینیہ کے علاقے ہی تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے قبضے میں ہیں۔ خالد الجسام نے کہاکہ فوج اور عوامی رضاکار فورس صوبہ صلاح الدین کو مکمل طرح سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے کارروائياں کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز نے شرقاط کے عوام کو پیغام بھیجا ہے کہ شہر سے نکل جائيں تاکہ اس شہر میں داعش کا صفایا کیا جاسکے۔ خالد جسام نے کہا کہ صوبہ صلاح الدین کے باشندوں کو واپس لانے کے بارے میں کہا کہ یہ کوئي آسان کام نہ ہوگا کیونکہ اس صوبے سے پندرہ لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صوبے کے باشندوں کو تدریجا آباد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں بجلی بحال کردی گئي ہے شہری خدمات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔جسام نے کہاکہ بازار بھی کھل گئے ہیں جبکہ طبی مراکز بھی عوام کو خدمات دینے کےلئے تیار ہیں۔ خالد الجسام نے کہا کہ عراق کے مغربی علاقوں الرمادی اور فلوجہ کی آزادی کی تیاریاں بھی مکمل کرلی گئي ہیں۔ ادھر صوبہ الانبار کی انتظامیہ کونسل کے سربراہ صباح کرحوت نے کہا ہے کہ فلوجہ اور الرمادی کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے کے لئے آپریشن شروع کرنے کی مکمل تیاریاں ہوچکی ہیں۔کرحوت نے کہا کہ فوجی آپریشنوں کا حکم دینے کا اختیار وزیر اعظم حید العبادی کو ہے۔ عراق کے وزیر اعظم فوج کر سپریم کمانڈر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صوبہ الانبار کی انتظامی کونسل کے رکن شلال الحلبوسی نے کہا ہےکہ عراق کی فوج اور عوامی رضاکاروں نے اس صوبے میں داعش کے زیر قبضہ علاقوں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے علاقوں کے محاصرے کا مقصد اسکی رسد کی لائنیں کاٹنا ہے۔ الحلبوسی نے کہا کہ بہت سے جوانوں نے الانبار کے فوجی اڈوں میں فوجی ٹریننگ مکمل کرلی ہے اور وہ ہتھیاروں سے لیس ہونے کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ تازہ دم جوان الانبار کو آزاد کرانے والی فوج میں شامل ہوجائيں گے۔ واضح رہے صوبہ الانبار کی انتطامی کونسل نے کہا ہے کہ تین ہزار پانچ سو جوانوں کو فوجی ٹریننگ دے کر مسلح کردیا گيا ہے۔انہون نے کہا کہ ان جوانوں کا تعلق الانبار کے قبائل سے ہے۔ دریں اثنا عراق کے بزرگ مرجع تقلید آیت اللہ العظمی سیستانی کے نمائندے نے کہا ہےکہ حکومت کو بھرپور طرح سے رضا کارفورس کی حمایت کرنا چاہیے۔ شیخ احمد الصافی نے کہا کہ رضا کار افراد کو ان افراد کے برابر قرار نہیں دیا جاسکتا جو صرف اپنے مفادات کے لئے کام کرتے ہیں۔