اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اعلان کیا تھا کہ جینوا میں یمن کے گروہوں کے درمیاں مذاکرات چودہ جون کو ہونگے۔اس کے بعد یہ اعلان کیا گيا کہ مذاکرات کو ایک دن موخر کردیا گيا ہے- ادھر امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے کہا تھا کہ واشنگٹن اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمن کے مذاکرات کی حمایت کرتا ہے اور تمام یمنی گروہوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان مذاکرات میں شرکت کریں۔ ادھر یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کے ترجمان نے مذاکرات کے لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی دعوت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریک غیر مشروط طور پر جینوا مذاکرات میں شرکت کرے گي۔
ادھراگرچہ اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ یمن میں انسانی مسائل اور بحرانی صورتحال کی وجہ سے جینوا نشست بلائي جارہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آل سعود کی شرمناک شکست ہے ۔ آل سعود کو یمن میں ڈھائي ماہ کی وحشیانہ جارحیت کے بعد بھی کچھ حاصل نہیں ہوا بلکہ رہی سہی آبرو بھی چلی گئي ہے۔ آل سعود نے اپنے مغربی آقاؤں عرب پٹھووں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ چند روز میں یمن کا کام تمام کردے گا لیکن اب جبکہ یمن پر آل سعود کی مسلط کردہ جنگ کو تیسرا مہینہ ختم ہونے والا ہے آل سعود کو نہ صرف کچھ حاصل نہ ہوسکا ہے بلکہ یمن کی انقلابی تحریک اور فوج نے سرحد پر آل سعود کی کرائے کی فوج پر حملے کرنا شروع کردئے ہیں جن میں آل سعود کو کافی جانی اور مالی نقصان ہورہا ہے۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ یمن کی انقلابی تحریک اور فوج نے سعودی عرب میں کئی کلومیٹر تک پیش قدمی بھی کی ہے۔ یمن کی عوامی انقلابی تحریک نے آل سعود کے سرحدی فوجی اڈوں پر حملے کرکے سعودی فوج کے ساز و سامان، گاڑیوں اور ٹینکوں پر جنگي غنیمت کے طور پر قبضہ کرلیا ہے۔ایسی صورتحال میں جینوا کی نشست سے آل سعود اور اسکے پٹھووں کو یہ فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ ان کی فوج کا جانی اور مالی نقصان نہیں ہوگا بلکہ یمن کے دلدل سے نجات پانے کا کوئي راستہ نکل آئے گا-
ان حالات کے پیش نظر سعودی عرب کو دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔
1۔ یمن پر اپنی وحشیانہ جارحیت جاری رکھے یہاں تک کہ اسے فوجی اعتبار سے کامیابی مل جائے۔
2: یا کوئي سیاسی راہ حل کو تسلیم کرلے
پہلے راستے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہےکہ اگر سعودی عرب کی جکومت فوجی اعتبار سے کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے یہ نکتہ زہن میں رکھنا ہوگا کہ تحریک انصاراللہ نے آل سعود کی جارحیت کے دوران اپنی فوجی توانائيوں سے استفادہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ زیادہ تریمن کے اندر آل سعود کے حمایت یافتہ دہشتگرد تنظیموں جیسے القاعدہ اور منصور ہادی کی ملیشیا سے برسر پیکار رہی ہے۔ ہرچند تحریک انصاراللہ اور آل سعود کی بری فوج کے درمیاں کچھ جھڑپیں ہوئي ہیں لیکن وہ بھی محدود رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انصاراللہ کو یمن کی کلاسیکل فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ اپنے جانباز گوریلا جوانوں کو میدان میں لا کر آل سعود کی کرائے کی فوج کے بخیے ادھیڑ سکتی ہے- یہ بات سب پر واضح ہے اور آل سعود بھی بخوبی جانتی ہے کہ میدان جنگ میں تو اسے کامیابی مل ہی نہیں سکتی کیونکہ جنگ کا فیصلہ فضائی حملوں سے نہیں ہوتا۔ سعودی عرب اب کھائي کے دہانے پر تک پہنچ چکا ہے جبکہ انصاراللہ نے ابھی تک اپنی ترپ کی چال نہیں چلی ہے۔ اگر سعودی عرب نے یمن پر زمیںي جنگ شروع کرنے کی حماقت کی تو ساری دنیا دیکھ لے گي کہ آل سعود کے کرائے کے فوجیوں میں کتنا دم ہے۔
دوسرا راستہ سیاسی راہ حل کی تلاش سے عبارت تھا ۔ یاد رہے سعودی عرب کو جینوا کانفرنس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یمن کا مسئلہ آل سعود کے لئے پھانسی کا پھندا بن چکا ہے اوریہ کانفرنس اسکے لئے یہ پھندا نکالنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر آل سعود کی ہٹ دھرمی کے یہ معنی ہیں کہ سعودی عرب جینوا مذاکرات میں بھی بزعم خویش اپنی برتری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مذاکرات کے دنوں میں اس نے سیاسی اور فوجی لحاظ سے یمن کے مظلوم عوام کے خلاف اپنے حملے تیز کردئے ہیں اور یہ کوشش کر رہا ہے جینوا مذاکرات میں اس کے یمنی پٹھو انصاراللہ پر برتری برقرار رکھ سکیں البتہ اس کے زعم باطل میں۔
ادھر آل سعود کے کرائے کے اتحاد کے ترجمان احمد العسیری نے یمن میں آل سعود کی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انصاراللہ اور یمن کی فوج نے خمیس اور مشیط فوجی اڈوں پر اسکڈ میزائلوں سے حملے کرکے بری میدان میں اپنی کامیابیاں برقرار رکھی ہیں تا کہ جینوا مذاکرات میں اپنی برتری قائم رکھ سکیں۔ واضح رہے جینوا میں یمنی گروہوں کے مذاکرات بذات خود انصاراللہ کے لئے ایک کامیابی ہے کیونکہ آل سعود نے ریاض میں مذاکرات کرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔ اس کے علاوہ یمن کے گروہوں کے درمیان مذاکرات بھی انصاراللہ کی کامیابی شمار ہوتا ہے، اسی وجہ سے آل سعود شکست خوردہ انداز میں جینوا مذاکرات کی اہمیت گھٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ یاد رہے منصور ہادی اور بحاح نے کہا ہےکہ جینوا مذاکرات اقوام متحدہ کی قراردادوں خلیج فارس تعاون کونسل کی تجویزوں پر عمل درآمد کے لئے مشاورتی اجلاس ہے اور ان مذاکرات کا مقصد بحران کو حل کرنا یا موجودہ صورتحال سے نکلنا نہیں ہے۔ ان بیانات سے آل سعود کے حمایت یافتہ سابق یمنی حکام کی کمزوری اور مذاکرات سے ان کا خوف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ مذاکرات اور اپنی بات منوانے کے لئے عوامی حمایت اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پاس نہيں ہے۔
ان تمام مسائل کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہےکہ یمن کے بحران کو حل کرنے کے لئے سفارتکاری کی ضرورت ہے- البتہ اس کے لئے سب سے پہلے انسانی ہمدردی کے اصولوں کے مطابق جنگ بندی کا اعلان کرکے اس پر عمل کرنا ہوگا۔ ہرچںد چینوا اجلاس میں ابھی سے کسی سمجھوتے کی توقع نہیں کی جاسکتی لیکن ماہ مبارک رمضان کے آغاز سے جنگ بندی کی توقع کی جاسکتی ہے۔شاید اس طرح یمن کے مظلوم اور رنجیدہ عوام کے مصائب میں کچھ کمی واقع ہو۔
یمن کےبحران کے سلسلے میں اگر یمن سے طے شدہ پہلے کے معاہدوں کو مد نظر رکھا جائے تو سیاسی مفاہمت کا امکان پیدا ہوسکتا ہے- یاد رہے ان مذکورہ بالا امکانی صورتوں میں سے کوئي صورت بھی سعودی عرب کے کندھوں پر سے یمن پر جنگ مسلط کرنے کی ذمہ داری کو کم نہیں کرسکتیں- یمن پر آل سعود کی جنگ غزہ پر صیہونیوں کے جرائم کی طرح قانون کی زد میں ہیں اور یمن کے عوام چونکہ خود مختار اور آزاد ملک و حکومت کے مالک ہیں اور ان کا ملک اقوام متحدہ کا رکن ہے لھذا ان کے لئے عالمی اداروں میں آل سعود کے خلاف قانونی کاروائي کرنے کے زیادہ سہولتیں مہیا ہیں۔