الوقت- بدھ مت کو ایک ایسا مذہب سمجھا جاتا ہے جو انسان تو ایک طرف کسی بھی جاندار پر معمولی سے ظلم کو اپنے مذھبی عقائد کے منافی سمجھتا ہے اس مذہب کے پیروکاروں نے میانمار میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کا جو بازار گرم کررکھا ہے اسکو دیکھ کر انسانیت شرما رہی ہے ۔مسلمانوں کے قتل عام اور انکی جبر ی ملک بدری کی تصاویر دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور انسان پکار اٹھتا ہے کہ اس دور میں انسانیت پر اس انداز سے ظلم ڈھایا جاسکتا ہے۔روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ میانمار کی حکومت کے اس وحشیانہ رویے پر تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ آسیان میں میانمار کی رکنیت ختم کر دیئے جانے کی ضرورت ہے-ارنا کی رپورٹ کے مطابق ملائیشیا کے اسلامک آرٹ میوزیم میں ہفتے کے دن "انسانیت پر ظلم" کے زیر عنوان ایک روزہ کانفرنس منعقد ہوئی- ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم نے اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ میانمار کی حکومت کے رویے پر تنقید کی- مہاتیر محمد نے کہا کہ آسیان میں میانمار کی رکنیت ختم کر دی جانی چاہئے- مہاتیر محمد نے مزید کہا کہ روہنگیا مسلمان آٹھ صدیوں سے میانمار میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور صرف نسلی بنیاد پر ان کو اس ملک سے نکالنا غیر قانونی ہے-
دوہزار بارہ سے مسلمانوں پر بدھ مذہب کے پیروکاروں کے وحشیانہ حملوں اور گھروں کو نذر آتش کر دیئے جانے اور سیکڑوں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ان کی ایک بڑی تعداد اپنا گھر بار چھوڑ کر پڑوسی ممالک کی جانب مہاجرت کرنے پر مجبور ہوگئي ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی مہاجرت میں تیزی آنے اور پڑوسی ممالک کی جانب سے انھیں پناہ نہ دیئے جانے کے باعث ہزاروں روہنگیا مسلمان کشتیوں پر بیٹھ کر سمندر میں سرگرداں ہیں اور ان کی بڑی تعداد کھانا پانی نہ ملنے کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ سمندر میں روہنگیا مسلمانوں کی المناک موت سے متعلق خبریں منظر عام پر آنے کے بعد ، میانمار حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہونے لگی چنانچہ انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال نسل کشی سے کم ہرگز نہيں ہے، میانمار حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے شہری حقوق تسلیم کرے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو انتہاپسند بدھسٹوں کے امتیازی سلوک اور طرح طرح کے تشدد کے ساتھ ہی میانمار حکومت کی جانب سے سفر پر پابندی، تعلیم اور حفظان صحت کی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے اور ان سے بے گار بھی کرایا جاتا ہے۔ میانمار کی حکومت یہ دعوی کرکے کہ روہنگیا مسلمان بنگلادیشی شہری ہیں، انھیں اپنے شہری کی حیثیت سے تسلیم نہيں کرتی حبکہ انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میانمار حکومت کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو شہری حقوق نہ دیئے جانے سے ان پر انتہاپسند بدھسٹوں کے پر تشدد اور جارحانہ حملوں کی زمین ہموار ہوئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت میانمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تسلیم کرتے ہوئے ان پر ہونے والے مسلسل مظالم اور تشدد کا سلسلہ ختم کرے۔ لیکن میانمار کی حکومت روہنگیا مسلمانوں کو شہری حقوق دینے سے اجتناب کررہی ہے اور اب تک اپنی حکومت پر ہونے والے اعتراض کو " غیرمتوازن بیانات" کہہ کر مسترد کرتی رہی ہے۔ حتی حکومت میانمار، صحافیوں کو مسلمانوں کی صورت حال کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے سے روک کر عملی طور پر دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کو نظرانداز کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ میانمار میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، طاغوتی شکنجوں میں جکڑے عالمی میڈیا اور غلامانہ ذہنیت کے حامل مسلم ممالک کے حکمرانوں کی مسلسل چشم پوشی کے باوجود میانمار کی روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ضمیروں کو مسلسل جھنجوڑنے میں مصروف ہے۔ آج میانمار کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے، انسانی حقوق کا علمبردار عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی خاموش ہے اور او آئی سی کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔
دوسری جانب امن کا پرچار کرنے اور عالمی ایوارڈ سمیٹنے والی اور میانمار میں سب سے بڑی سیاسی رہنما اور نوبل انعام یافتہ سیاستدان آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو ان کی نسل کشی قرار دینے سے انکار کردیا۔
کیا اب بھی میانمار کے مسلمانوں کو انصاف دلوانے کے لئے عالمی ضمیر کو جنجھوڑنے کی ضرورت نہیں ہے؟