الوقت-افغانستان ميں داعش كي موجودگي كے حوالے سے مختلف تبصرے سامنے آرہے ہيں ۔كچھ اسے افواہ اور بعض اسكو حقيقت قرار دے رہے ہيں ۔افغانستان كے سركاري اور سيكوريٹي زرائع نے كہا ہے كہ غير موثق زرائح كے مطابق ہلمند،زابل اور فراہ جيسے صوبوں ميں طالبان كے سفيد جھنڈوں كي جگہ داعش كے سياہ پرچموں نے لے لي ہے ليكن يہ سب خبريں كافي نہيں ہيں كہ اسكي بنياد پر يہ فيصلہ كيا جائے كہ داعش نے افغانستان ميں اپنے پير جما لئے ہيں كيونكہ يہ علاقہ طالبان كا علاقہ ہے اور وہ يہاں پر اسلامي حكومت كا قيام عمل ميں لانا چاہتے ہيں۔اس حوالے سے افغانستان كے صدر كے سلامتي كے مشير حنيف اتمر اور روسي صدر كا بيان خصوصي اہميت كا حامل ہے۔ان دونوں كے بيانات ميں وسطي ايشيا اور افغانستان كے ہمسايہ ممالك ميں داعش كے حطرات كي طرف اشارہ كيا گيا ہے اور اس پر تشويش كا اظہار كيا گيا ہے ۔اس حوالے سے دو اہم سوالات سامنے آتے ہيں۔
1=داعش كے لئے افغانستان ميں كونسي خصوصي كشش ہے ؟
2=افغانستان ميں داعش كي موجودگي سے علاقائي اور عالمي مسائل پر كيا اثرات مرتب ہوسكتے ہيں؟۔
اگر ان سوالات كے تناظر ميں تجزيہ كيا جائے تو يہ بات واضح ہوتي ہے كہ داعش كے لئے يہ علاقہ جسے خراسان كا نام ديا جاتا ہے نظرياتي حوالے سے خصوصي اہميت كا حامل ہے كيونكہ داعش كے عقائد كے مطابق رسول اكرم ص كي ايك حديث ميں اس علاقے ميں اسلامي خلافت كے قيام كا آغاز ہوگا۔داعش نے اسلامي خلافت كا جو نقشہ جاري كيا ہے اس ميں گريٹر خراسان كا جو علاقہ دكھايا گيا ہے اس ميں سنٹرل ايشيا ،افغانستان اور ايران شامل ہيں بلكہ اس ميں برصغير اور تمام وہ علاقے شامل ہين جہاں مسلمان آباد ہيں۔
اس كے علاوہ اہم بات يہ ہے كہ افغانستان بالخصوص ہلمند كے علاقے كو منشيات كي پيداوار كے حوالے سے بھي خصوصي اہميت حاصل ہے اور داعش آمدني كے اس زريعے كو بھي اپنے قبضے ميں ركھنے كا خواہشمند ہوگا۔ اس سے پہلے طالبان نے بھي آمدن كے اس ذريعے سے بھر پو ر فائدہ اٹھايا ہے۔ايك اور نكتہ بہت اہم ہے اور وہ يہ ہے كہ افغانستان ميں داعش كو تشكيل دينے والے افراد مقامي ہيں يا يہ گروہ مكمل طور سے باہر سے وابستہ ہے اس حوالے سے موثق رپورٹس تو موجود نہيں ہيں ليكن ايسا لگتا ہے كہ داعش اس حوالے سے عراق اور شام كے تجربات سے استفادہ كرے گا اور يہاں پر بھي مقامي گروہ تشكيل دے گا۔عراق اور شام ميں شروع ميں مقامي القاعدہ سے مدد لي گئي اور بعد ميں دوسرے ممالك سے لوگوں كو شام اور عراق ميں درآمد كيا گيا۔ كہا جارہا ہے كہ افغانستان ميں داعش گروہ پہلے طالبان كے ناراض دھڑوں كو جذب كرےگا اور اسكے زريعے افغانيوں كو اپنے گروہ ميں شامل كرے گا اسكے بعد دوسرے ممالك سے اپنے زوق كے افراد كو اس علاقے ميں امپورٹ كيا جائيگا۔دعش نے اس وقت پاكستان كے اوركزئي علاقے كے ايك متنازعے شخص حافظ سعيد خان كو داعش كي ذمہ داري دي ہے جو اس سے پہلے طالبان پاكستان كا ايك اہم كمانڈر تھا۔دوسرے مرحلے ميں چچنيا،ايغور،ازبك،تاجك اور دوسرے ممالك كي مختلف اقوام اور شہريوں كو داعش ميں شامل كيا جائيگا۔
داعش كے اس علاقے ميں موجودگي كو علاقائي سطح پر كسطرح ديكھا جائيگا اس حوالے سے روسي صدر پوٹين كا اظہار تشوش خصوصي اہميت كا حامل ہے اسي طرح چين كا ردعمل بھي اتفاقي نہيں ہے ۔دوسري صرف روس اور چين كو اس بات كا انديشہ ہے كہ امريكہ اس علاقے ميں داعش كي تشكيل كے زريغے انكے مفادات كو نقصان پہنچا سكتا ہے ۔داعش كو اس بات كا علم ہو يا نہ ہو اس علاقے ميں اسكے نفوز سے چين اور روس دونوں كے مفادات كو خطرہ ہے اور اس كا سب سے زيادہ فائدہ امريكہ كو ہي پہنچے گا۔
دوسري طرف داعش كو پاكستان اور افغانستان كي سرحدوں پر بلند و بالا پہاڑي سلسلہ ميں ايك بہتريں پناہ گاہ ميسر آجائيگي كيونكہ عراق اور شام اب انكے لئے زيادہ مطمئن جگہيں نہيں رہي ہيں۔اگر طالبان اور افغان حكومت كے درميان مذاكرات كسي اچھے نتيجے پر پہنچ جاتے ہيں تو طالبان كا ايك بڑا دھڑا طالبان سے جدا ہوكر داعش كے سياہ پرچم كے نيچے آجائے گا ۔افغانستان داعش كے لئے ايك بہترين علاقہ ہے كيونكہ جغرافيائي لحاظ سے اسكي سرحديں وسطي ايشيا كے ممالك كے علاوہ ايران،پاكستان ،چين وغيرہ سے ملتي ہيں لہذا امريكہ اس دہشتگرد گروہ كے توسط سے روس،ايران اور وسطي ايشيا كے حوالے سے سياسي،سلامتي اور اقتصادي شعبوں ميں ان مملك كے لئے اسٹريٹيجك مشكلات كھڑي كر سكتا ہے اسي طرح ايران كو بھي مختلف چيلنجوں سے دوچاركيا جاسكتا ہے ۔سعودي عرب بھي اس گروہ كي بھر پو ر حمايت كركے شام ،عراق،بحرين،لبنان اور يمن ميں ايران كے بڑھتے ہوئے اثر و نفوز كا جواب دے سكتا ہے۔