الوقت- سنہ دو ہزار نو سے روہنگیا مسلمانوں پر انتہاپسند بوڈھسٹوں کے حملے جاری ہیں اور میانمار کی بظاہر غیر فوجی حکومت بھی ان انتہاپسند بودھسٹوں کے ساتھ کھڑی ہے- میانمار میں موجود مختلف اقوام، نسلوں اور مذاہب کے لوگوں میں سے صرف روہنگیا مسلمان ہی تشدد کا شکار ہیں- میانمار کے مسلمان اپنے ملکی حالات تنگ آکر دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کررہے ہیں۔میانمار سے فرار ہو کر انسانی اسمگلروں کے چنگل میں پھنسنے والے اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے کے سمندر میں سرگرداں ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کے حالات، گزشتہ چند روز کے دوران اس علاقے کے ایک اہم مسئلے میں تبدیل ہو چکے ہیں- ان میں سے دسیوں آوارہ وطن افراد بھوک یا بیماری کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور ان کی لاشیں سمندر کے حوالے کر دی گئی ہیں- جبکہ سینکڑوں روہنگیائی آوارہ وطنوں کو انسانی اسمگلروں نے غیرآباد جزیروں پر بےیارومدد گار چھوڑ دیا ہے- اب تک تقریبا تین ہزار آوارہ وطن چند کشتیوں کے ذریعے ملایشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کی سمندری حدود میں داخل ہوئے ہیں- ان میں سے بعض افراد کو ملایشیا اور انڈونیشیا میں کیمپوں کے اندر کڑی نگرانی میں رکھا گیا ہے- بتایا جاتا ہے کہ صحافیوں کو ان کیمپوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے انتہا پسند بدھسٹوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کی صورت حال پر تشویش ظاہرکی ہے- ایک طویل خاموشی کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے میانمار کے انتہا پسند بدھسٹوں کے ظلم و ستم اور حملوں کے بعد اپنا گھر بار اور ملک چھوڑ کر جنوبی مشرقی ایشیا کے سمندر میں سرگرداں ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے- اس سلسلے میں ملایشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق نے بھی نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اتوار کے روز ان کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کر کے روہنگیائی مسلمانوں کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی ہے- ادھر میانمار کے فوجی حکمرانوں نے اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیاں بدل دی ہیں اور اب ان کا رجحان یورپ اور امریکہ کی جانب ہو گيا ہے- یہی وجہ ہے کہ اب ان کو یورپی حکومتوں کی تنقیدوں کا بہت کم سامنا کرنا پڑتا ہے اور یورپی حکومتیں میانمار میں مسلمانوں کے حقوق کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی خلاف ورزی کو بھی نظر انداز کر دیتی ہیں- انتھا پسند بودھوں کے ہاتھوں سیکڑوں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد دسیوں ہزار روہنگيا مسلمان دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ روہنگيا مہاجرین کو دوسرے ملکوں میں پناہ لینے میں بڑی مشکلیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ ادھر گذشتہ ہفتے تھائي لینڈ کے جنوبی علاقے میں ایک اجتماعی قبر کی دریافت کے بعد ان مسلمانوں کی مظلومیت اور کسمپرسی کے نئے پہلو سامنے آئے ہیں۔ تھائي لینڈ میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبر سے بنگلادیشی اور روہنگيا مسلمانوں کی لاشیں برآمد ہوئي ہیں۔ واضح رہے انسانی اسمگلروں کی قید سے رہا ہونے والے روہنگيا افراد نے کہا ہے کہ اگر یہ قیدی تاوان ادا نہیں کرپاتے ہیں تو انہيں جنگلوں میں گولی ماردی جاتی ہے۔ واضح رہے آراکان روہنگيا فیڈریشن کے سربراہ نے کہا ہےکہ انتھاپسند بودھوں کے ہاتھوں روہنگيا مسلمانوں کے قتل عام ، ان کے گھروں کو نذر آتش کرنے نیز میانمار حکومت کے دباؤ کی وجہ سے روہنگيا مسلمانوں کے پاس ترک وطن کےعلاوہ کوئي چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ روشیں روہنگيا مسلمانوں کو زور زبردستی ترک وطن پر مجبور کررہی ہیں۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اسلام اور حرمین شریفین کی حفاظت کے بہانے مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے عرب حکمران بےچارے یمنیوں کو اپنے زیر تسلط لانے کے شیطانی منصوبے پر عمل درآمد کے لئے تو اربوں ڈالر خرچ کررہے ہین لیکن وہ ان آوارہ وطن روہنگیائی مسلمانوں کے لئے ایک لفظ بھی ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں دوسری طرف مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی مکمل چپ سادھے ہوئے ہے۔کیا مسلمان ممالک میں کوئی تنظیم یا ادارہ ان مظلوموں کے لئے عملی قدم اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے۔