الوقت- ترکی میں سات جون کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ان انتخابات کو ترکی کی تاریخ کے انتہائی حساس انتخابات سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔ترکی میں ماضی میں ہونے والے چوبیس انتخابات میں حالیہ انتخابات کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے کیونکہ اگر ان انتخابات میں حکمراں جماعت کو کامیابی نصیب ہوتی ہے تو وہ آئین میں تبدیلی کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور اگر جسٹس اور ترقی پارٹی کو مطلوبہ نشستیں نہیں ملتیں تو انہیں ریفرنڈم کرانا پڑے گا اور اسکے لئے ایک پیچیدہ اور طولانی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
ریفرنڈم کرانے کے لئے دو مشکلات ہیں ایک پارلیمنٹ کی منظوری اور دوسری تمام پارٹیوں کو اس پر راضی کرنا ہے جو خود اپنی جگہ پر ایک مشکل کام ہے۔ یہاں پر ایک اور سوال نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ آئین میں تبدیلی کیوں ضروری ہے ۔اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ترکی کا آئینی ڈھانچہ اینگوسیکسن ہے جبکہ آئینی شقیں اور پارلیمانی نظام فرانسیسی پارلیمانی نظام کا چربہ ہے۔اس اختلاف کی وجہ سے ملکی مسائل اور حکام کے اختیارات کا مسئلہ ہمیشہ مشکلات اور پیچیدگیوں کا شکار رہتا ہے اور اسی نظام کی خرابی کی وجہ سے عوام ملکی مسائل میں براہ راست دخیل نہیں ہوتے اور عوامی حقوق ایک خاص بیوروکریسی کی غلام گردشوں میں گم ہوجاتے ہیں
رجب طیب اردوغان کی حکومت اس دوگانگی کو ختم کرنا چاہتی ہے لیکن بعض جماعتوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت ہوتی ہے ۔شاید اسی نقطہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں جسٹس اینڈ ترقی پارٹی دوسری جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے کوشاں ہے . مختلف سروے رپورٹوں سے پتہ چل رہا کہ ترک عوام کسی ایک پارٹی کی طرف مکمل رجحان نہیں رکھتے اور ووٹ تقسیم ہوکر سامنے آئے گا۔گذشتہ انتخاباب میں رجب طیب کی پارٹی نے پچاس فیصد ووٹ لئے تھے لیکن اس بار کہا جارہا ہے کہ یہ شرح چوالیس فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔دوسری جماعتوں بالخصوص عوامی جمہوریہ اور قومی موومینٹ کی تعداد چوبیس اور تیرہ فیصد ہوگی تاہم کہا جارہا ہے کہ جو انتخابات کے نتائج کو متاثر کرسکتی ہے وہ امن و جمہوری پارٹی نامی اتحاد ہے جسے اس وقت کردوں کا سب سے بڑے سیاسی اتحاد قرار دیا جارہا ہے ۔بہرجال اگر اس سروے کے مطابق انتخابات کے نتائج سامنے آتے ہیں تو ترکی کے آئین میں تبدیلی کا رجب طیب اردوغاان کا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے جسکا نتیجہ حکومتی معاملات کو چلانے میں دشواریوں کی صورت مین سامنے آئے گا لہذا اس بات کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ رجب طیب کی پارٹی بعض دوسری پارٹیوں سے اتحاد کرے جسکا ردعمل کرد اتحاد کی طرف سے آسکتا ہے ۔ ان حالات کو دیکھ کر پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ اس وقت ترکی ایک گہری تبدیلی کے دہانے پر ہے جس میں بنیادی سیاسی نظام میں تبدیلیاں آسکتی ہیں جوبعض قوتوں کے لئے قابل ہضم نہیں ہے ۔ترکی میں تبدیلی کے یہ اثرات صرف داخلی سطع پر مرتب نہیں ہوںگے بلکہ بیرونی اثرات بھی یقینی ہیں۔یاد رہے ترکی میں سات جون کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہورہے ہیں جس میں بیس سیاسی جماعتیں اور ایک سو ساٹھ آذاد امیدوار شرکت کررہے ہیں۔ان انتخابات میں ترپن ملین رائے دہندگان ملک کے اندر اور تین ملین ملک سے باہر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے ۔