الوقت - کچھ پاکستانی حکام آرمی چیف سے ملاقات کی غرض سے راولپنڈی میں آرمی ہیڈ کوارٹر پہنچے اور انہوں نے قومی سلامتی کے مسائل پر گفتگو کی۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی گفتگو کا اصلی محور رہی۔
جنگ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے پاکستان کے بلوچستان علاقے میں امریکی جنگی جہاز کے حملے پر اظہار تشویش کیا کہ جس میں افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گیا تھا۔ افغان طالبان رہنما کا قتل، F16 جنگی جہاز دینے سے امریکہ کا انکار، ہندوستان کے وزیر اعظم کا امریکہ کا دورہ، یہ وہ مسائل ہیں جن کی بنا پر اسلام آباد - واشنگنٹن کے تعلقات، مزید کشیدہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کی سینٹ کے سربراہ نے امریکہ سے تعلقات کے بارے میں فوری طور پر نشست بلائی ہے، نیز صدر نے کہا ہندوستان کی جانب سے سوپر سونیک میزائل تجربے اور امریکہ سے ہندوستان کے تعلقات نے ہمیں ایک ٹھوس فیصلے کے لئے مجبور کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کچھ دن پہلے امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کے دوران ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نیوکلائیر سپلائیر گروپ میں عضویت کے لئےاہم نتیجوں تک پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ نے بھی عضویت کے لئے ہندوستان کی حمائت کا وعدہ کیا ہے۔
بہرحال یہ کہنا بجا ہوگا کہ امریکی ڈرون کے ذریعے ملا اختر منصور کا قتل دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا باعث بنا ہے، البتہ ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان قدیمی تعلقات، اس بات کی توجہ دلاتے ہیں کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی صرف ایک دکھاوا ہے، چونکہ تاریخی شواہد کی بنیاد پر دونوں ملکوں کے درمیان کبھی اس طرح کے مسائل نظر نہیں آتے، واشنگٹن اور اسلام آباد کے مفاد ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل امریکی حکومت نے پاکستان کو ، f-16 جنگی جہاز دینے سے منع کردیا تھا جن کی تعداد 8 ذکر کی گئی تھی۔
امریکی حکومت اس سلسلے میں 43 کروڑ ڈالر مالی امداد کا وعدہ کرچکی تھی لیکن اوباما نے امریکہ کی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے چیئرمین کا مشورہ مانتے ہوئے اس امداد کو مسترد کردیا۔
اس وقت پاکستان ان جنگی جہاز کے لئے 70 کروڑ ڈالر دینے پر مجبور ہے، لیکن امریکہ کی جانب سے انکار کے بعد روس اور چین سے بھی جنگی جہاز خریدنے کے سلسلے میں گفتگو جاری ہے۔
ان تمام مسائل کے باوجود یہ کہنا ضروری ہے کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات اسٹریٹجک ہیں، اب دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکہ، پاکستان کے سلسلے میں کونسی اسٹرٹیجی اختیار کرتا ہے ؟
۱۔ حقیقت تو یہ ہے پاکستان بنیادی مسائل میں سوپر پاور ممالک کا محتاج ہے، امریکہ اور برطانیہ، پاکستان کے سیاسی مسائل میں خفیہ رقابت کرتے چلے آرہے ہیں، وہ پاکستانی جماعتوں کے ساتھ تعلقات پیدا کر اپنے مفاد کی تلاش میں ہیں، لیکن ان سب کے باوجود سب سے رابطے میں ہیں اور مفاد کو دیکھتے ہوئے موقع کا فائدہ اٹھاکر خاص موقع پر کسی ایک جماعت کی حمائت کرتے ہیں۔
۲۔ غالباً امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان میں کوئی ضعیف حکومت بر سر اقتدار پر آئے تا کہ داخلی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہو اور امریکہ اسی بہانے پاکستان میں اپنے قدم جما سکے۔
۳۔ تیسرا اہم پہلو آمریت کی طاقت ہے، امریکی کہتے ہیں اسکے ذریعے دوسرے ممالک کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس اعتبار سے یہ کہنا بجا ہوگا کہ فوج امریکا سے خوش نہیں ہے اور فوج کا ماحول ویسا نہیں ہے جیسا وہ چاہتا ہے۔
۴۔ فوج اور سلامتی کونسل کو مدنظر قرار دیتے ہوئے کہنا پڑے گا کہ ’’قومی رجحان یا قوم پرستی‘‘ اور ’’مذہبی رجحان‘‘ پاکستانیوں کی دو اہم بنیادیں ہیں، یہ دونوں خصوصیتیں فوج اور ISI دونوں میں پائی جاتی ہیں، ہارڈ ویئر کوششوں کے علاوہ جیسے (مالی، جنگی اور علمی حمائت) سافٹ ویئر حمائت جیسے (غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی تلاش و غیرہ ) جاری ہے۔ فوجی کمانڈروں کے حالیہ اجلاس میں اس بات پر تاکید کی گئی تھی۔ پاکستانی آرمی ہمیشہ اس بات سے خوفزدہ رہی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور پارٹیوں کی لڑائی کے چکر میں پاکستان کی علاقائی سلامتی خطرے میں پڑجائے ۔ موجودہ حالات میں ہر وہ تیسری قوت یعنی ’’عوام پارٹی‘‘ اور ’’مسلم لیگ‘‘ پارٹی کے علاوہ سامنے آنا چاہتی ہو تو وہ صرف اور صرف فوج کی نظریاتی اور عملی حمایت کے ذریعے ہی سامنے آسکتی ہے۔