الوقت--نيٹو ايك عالمي تنظيم ہے اور اس نے بين الاقوامي بحرانوں اور واقعات ميں اہم كردار ادا كيا ہے۔ سابق سوويت يونين كے خاتمے كے بعد نيٹو كو سب سے بڑے چيلنجوں كا سامنا كرنا پڑا كيونكہ سابق سوويت يونين كاشيراز بكھرنے كے بعد نيٹو كا فلسفہ وجود ہي ختم ہوگيا تھا۔اس موقع پر يہ سوچا جارہاتھا كہ نيٹو كو بتدريج منحل كرديا جائے گا ليكن بحران بلقان نے اس فوجي تنظيم كو منحل ہونے سے روك ديا بلكہ نيٹو كے ركن ملكوں نے مشرقي ملكوں كے تعلق سے اپني پاليسيوں ميں تبديل لاكر اسے عالمي سطح پر مزيد موثر بنانے كي كوشش كي۔گيارہ ستمر كے حملے اور عالمي دہشتگردي كے خطرے جيسے نظريات نے اسے دوبارہ زندگي عطا كي اور يہ فوجي تنظيم نے اپنا دائرہ عمل مركزي ايشيا اور قفقاز تك بڑھا ديا۔ نيٹو نے نئے روپ ميں روس كو بھي مطمئن كرليا كہ وہ بھي اس كے ساتھ تعاون كرے۔
يوكرين كے حالات اور كريميہ كو ملحق كركے ان پر روس كا رد عمل بہت سے سياسي مبصرين كي نظر ميں نيٹو كي پاليسيوں ميں بنيادي تبديليوں كا سبب بنا ہے۔اس كي وجہ يہ ہے كہ نيٹو كے ركن ممالك نے يوكرين ميں ماسكو كي مداخلت كو پرامن يورپ كا چہرہ مسخ كركے پيش كرنے نيزمشرقي يورپ ميں نيٹو كو ايك غير ذمہ دار تنظيم ظاہر كرنے كي كوشش قرارديا ہے۔ روس كي يہ كوششيں نيٹو كو بدنام كركے مشرق كي طرف اس كي پيش قدمي كو روك سكتي ہيں۔
نيٹو مشرق يورپ اور قفقاز و مركزي ايشيا كے اسٹراٹيجيك علاقوں ميں موجود رہنے پر اصرار كررہا ہے ليكن اسے اس ھدف كو پورا كرنے كےلئے اسٹراٹيجي، اور اس ھدف كے مطابق جامع اور مناسب آپريشنل پروگرام كي ضرورت ہے تاكہ اس طرح وہ ماسكو كي چالوں كا مقابلہ كرسكتي ہے۔
ادھر امريكہ اور يورپي ملكوں كے درميان نيٹو كا بجٹ بڑھانے اور اس كي فوجي مہموں ميں شركت كرنے كے بارے ميں اختلافات بدستور جاري ہيں يہاں تك كہ يورپ كے محض اكتاليس فيصد شہريوں نے يوكرين كي مدد كرنے ميں دلچسپي ظاہر كي ہے۔
يوكرين كے بحران كے تعلق سے بھي نيٹو كي تنظيم عراق و شام كے بحرانوں كي طرح اختلافات كا شكار ہے۔ البتہ يوكرين كے بارے ميں نيٹو كي تاسيس كے موقع سے اختلافات چلے آرہے ہيں ليكن اب فرق بس اتنا ہے كہ پہلے يہ اختلافات بند كمروں كي حد تك ہي محدود تھے ليكن اب يورپي سڑكوں پر بھي دكھائي دے رہے ہيں۔
يوكرين كا بحران اقتصادي لحاظ سے بھي اثرانداز ہوا ہے۔ يورپ چونكہ قدرتي گيس كے حصول كے لئے روس پرمنحصر ہے لھذا روس پر عائد پابنديوں كي وجہ سے يورپي ملكوں كوتشويش لاحق ہوچكي ہے، اس سلسلے ميں نيٹو كے سابق سكريٹري جنرل راسموسن نے كہا تھا كہ نيٹو كے ركن ملكوں چاہيے كہ وہ اپني جي ڈي پي كا دو فيصد حصہ نيٹو سے مختص كرديں، ليكن روس پر عائد پابنديوں كي وجہ سے يورپ مالي اور اقتصادي لحاظ سے بري طرح متاثر ہوا ہے۔ روس پر عائد پابنديوں كا اثر اس حدتك ہوا ہےكہ دويچہ بينك نے كہا ہے كہ اگر يہي صورتحال جاري رہي تو يورپ كے ملكوں كي اقتصادي صورتحال كے اعتبار سے بوڑھے يورپ كي ترقي ميں ٹہراؤ اور جوان يورپ ميں مہنگائي اور افراط زر كي توقع ركھنا چاہيے۔ اس صورتحال ميں يورپي ممالك نيٹو كو مزيد پيسہ دينے اور اسكي فوجي مہموں ميں شركت كرنے پر منفي رد عمل ہي ظاہر كريں گے۔
نيٹو كي تاسيس كي سات دہائيوں بعد يہ فوجي تنظيم اپنے سامنے بنيادي ترين چيلنج كا مقابلہ كرنے سے قاصر رہي ہے، اسكي بنيادي وجہ نيٹو كي غير لچك دار پاليسياں ہيں۔ جنگ سرد كے زمانے ميں بنائي گئي يہ پاليسياں سابق سوويت يونين كے خاتمے كے بعد بھي برقرار رہيں اور مشرق كي طرف توجہ نيز بلقان اور افغانستان ميں نيٹو كي ماموريت كے باوجود ان ميں كوئي خاص فرق نہ آيا۔ يہ بات بے سبب نہيں ہےكہ يورپي يونين كي تعاون اور سكيورٹي تنظيم ( او ايس سي ائي ) يوكرين كے بحران ميں نيٹو سے بڑھ كر آپريشنل ذمہ دارياں قبول كرنے كے لئے آگے بڑھي ہے۔ اس حقيقت پر نيٹو كے مقابل يورپ كے دفاعي اور سكيورٹي شعبے كي بہتر كاركردگي پر تاكيد كي گئي ہے اور كہا گيا ہے كہ يہ ادارہ يورپ كي سلامتي كي بہتر طريقے سے ضمانت دے سكتا ہے۔ اگر اس يورپي ادارے كے اھداف و مقاصد پر عمل درآمد شروع ہوجائے تو وہ نيٹو كي موجودہ پاليسيوں كے بالكل برعكس ہوگا اور اس سے نيٹو اور او ايس سي ائي ميں تصادم ہوجائے گا اور يورو زون ميں نيٹو كي مقبوليت كافي گھٹ جائے گي۔
نيٹو كے بہت سے ملكوں ميں مناسب اقتصادي انفر اسٹركچر كا فقدان ہے، اسكے علاوہ نيٹو ميں جديد ملكوں كي شموليت كے نتيجے ميں نيٹو اپنے نئے تقاضوں اور ضرورتوں كو پورا نہيں كرپارہي ہے بلكہ اصولا نيٹو كے پاس اپنے نئے اراكين كي سياسي اور فوجي ذمہ داريوں كي تكميل كے لئے وقت، كيفيت اور كميت كے اعتبار سے كوئي فريم ورك نہيں ہے۔ ان ہي مسائل كي وجہ سے ہم نے جنگ عراق ميں ديكھا كہ نيٹو كے اراكين سے كہا گيا تھا كہ وہ رضاكارانہ طور پر اس جنگ ميں شريك ہوسكتے ہيں، يہ مسئلہ نيٹو كے لئے پسپائي شمار ہوتا ہے۔
دوسري طرف سے نيٹو پر امريكہ كے تسلط اور يكطرفہ برتري سے اس فوجي تنظيم كے يورپي ركن ممالك پر سياسي اور نفسياتي طورپر بڑے منفي اثرات پڑے ہيں۔ برطانيہ كے علاوہ نيٹو كے يورپي ركن ممالك نے يوكرين كے بحران كے بعد ايك بار پھر اس بات پر تاكيد كي كہ فيصلہ كرنے كا صرف ايك ہي مركز نہيں ہونا چاہيے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ يورپي ملكوں كو امريكہ كے يكطرفہ اقدامات اور دنيا پر اپني چودھراہٹ جمانے سے تشويش لاحق ہے۔
ہرچند نيٹو كي جانب سے جوان اور پرتحريك يورپ كے لئے سكيورٹي، دفاع اور كرائسس مينجمينٹ نيز اشتراك مساعي كے نعرے بڑے جذاب تھے ليكن ان نعروں نے بوڑھے يورپ كو امريكہ كي يكطرفہ برتري كو قبول كرنے پر مطمئن نہيں كيا۔ اسي وجہ سے كہا جاتا ہےكہ يورپ اس بات پر اصرار كرتا ہے كہ نيٹو بھي بحرانوں كے حل كے لئے برلين پلاس نشست كے مطابق اقوام متحدہ اور ديگر عالمي تنظيموں كے كردار كو تسليم كرلے۔ برلين پلاس نشست سترہ مارچ دوہزار تين ميں ہوئي تھي۔
ان حالات ميں مونيخ كي حاليہ سكيورٹي كانفرنس ميں نيٹو كے ركن ممالك كا اختلاف يہ ظاہر كرتا ہےكہ اسے يوكرين جيسے بحران كا مقابلہ كرنے كےلئے جس ميں اس كامد مقابل روس جيسا طاقتور ملك ہے دائمي اتحادوں سےپرہيز كركے اپني مشنز كے مطابق اتحاد بنانے كي الگ روشوں سے كام لينا ہوگا۔اس اساس پر نيٹو اور ديگر ملكوں كے درمياں عارضي اتحاد عمل ميں آسكتا ہے يا نيٹو كو ماوراء بحراقيانوس آپريشنون ميں اپنے حليفوں كو مسلح كرنے اور عارضي علاقائي اتحاد بنانے پر ہي اكتفا كرنا پڑے گا۔