انسانی حقوق کی تنظیموں اور شخصیات کی جانب سے آل سعود پر کی جانے والی تنقید اور دباؤ کی وجہ سے سعودی عرب نےایک بار پھر عارضی جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے پر مل جلا ردعمل سامنے آرہا ہے ۔ یمن میں عارضی جنگ بندی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یمنی فوج اور عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ نے اعلان کیا ہے کہ ہر اس اقدام میں تعاون کیا جائے گا کہ جس کے نتیجے میں یمنی عوام کے مسائل و مشکلات دور ہوسکتی ہیں-یمن کی عوامی انقلابی تحریک انصاراللہ کی سیاسی کونسل نے سنیچر کی رات ایک بیان میں، یمن کے مختلف علاقوں پر سعودی حملوں سے متاثرہ لوگوں کی امداد کے لئے فائر بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے، یمن کا ظالمانہ محاصر فوری طور پر ختم کئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی ہے- تحریک انصاراللہ کی سیاسی کونسل نے سعودی جارحیت بند کرانے کے لئے دوست ملکوں کی کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے، اقوام متحدہ کی نگرانی میں قومی امن مذاکرات کا عمل، اسی جگہ سے شروع کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جہاں سے یہ عمل تعطل کا شکار ہوا تھا- یمن کی مسلح افواج کے ترجمان شرف محفوظ نے بھی ایک بیان میں انسان دوستانہ جنگ بندی پر یمنی فوج کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائر بندی کے عرصے میں انسان دوستانہ امداد کی ترسیل کے لئے تجارتی بحری جہازوں کو یمنی ساحلوں پر لنگرانداز ہونے کی اجازت دیئے جانے کی ضرورت ہے- اس ترجمان نے دواؤں، غذائی اشیاء اور ایندھن کی یمن منتقلی میں رکاوٹ پیدا کئے جانے کو بین الاقوامی قوانین اور انسانی و اخلاقی اصول و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا- شرف محفوظ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ فائر بندی کی خلاف ورزی اور اس خلاف ورزی کی حمایت کرنے والوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا جائے گا- دوسری جانب یمن کی وزارت صحت کے ترجمان تمیم الشامی نے کہا ہے کہ انسان دوستانہ امداد پہنچائے جانے سے متعلق فائر بندی کے بارے میں اگر سعودی عرب کا دعوی، صحیح بھی ثابت ہو تو بھی دواؤں، غذائی اشیاء اور ضرورت کے سامان کی فراہمی کے لئے فائر بندی کی مدّت بہت کم اور ناکافی ہے۔ یمن کے اس عہدیدار نے کہا ہے کہ فائر بندی پر عملدرآمد کے بارے میں نیک توقعات کا اظہار، ایسی حالت میں کیا جارہا ہے کہ گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران یمن کے مختلف علاقوں پر سعودی جارحین نے شدید حملے کئے ہیں جن میں درجنوں یمنی عام شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں یمن میں اقوام متحدہ کے کوآرڈینیٹر نے بھی اعلان کیا ہے کہ یمن کے مختلف علاقوں خاص طور سے صعدہ پر سعودی جنگی طیاروں کے بلاسبب حملے اور بمباری، بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے- انھوں نے یمن کے عام شہریوں پر جارحین کے جاری حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فائر بندی کے لئے انجام پانے والی کوششوں کے باوجود یمن کی بنیادی تنصیبات اور رہائشی علاقوں پر سعودی جنگی طیاروں کے حملے، جاری رہے ہیں- دریں اثنا یمن سے موصولہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ یمن کے مختلف علاقوں پر سعودی جنگی طیاروں کی پروازوں کا سلسلہ جاری ہے اور شمالی یمن کے صوبے صعدہ کے مختلف علاقوں پر ہفتے کی رات ہونے والے حملوں میں درجنوں عام شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں جبکہ صوبہ صعدہ کے شمال میں یمن کے سرحدی علاقوں پر سعودی گولہ باری کا سلسلہ، کئی روز سے جاری ہے اور اس جارحیت میں بھی یمن کے دسیوں عام شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں-
آل سعود نے اس سے پہلے بھی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر زرہ برابر عمل نہیں کیا۔سعودی عرب کے حالیہ اعلان کو بھی شکو ک و شبہات کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے بعض تحزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یمن مین ایک انسانی المیے کے خوف سے سعودی عرب نے جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے تاہم گذشتہ پینتالیس دنوں میں اس ظالم حکومت نے جسطرح اپنے ہمسایہ ملک جس میں مسلمانوں کی اکثریت بستی ہے جسطرح بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ انسانی المیے کے خوف سے جارحیت کو روک رہا ہے عبث نظر آرہا ہے تاہم اس بات کو کسی حد تک مانا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس اقدام کا باعث ہوں لیکن دوسری طرف اس تلخ حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یمن کے حوالے سےانسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی وہ کردار ادا نہیں کررہی ہیں جیسا کہ انہیں ادا کرنا چاہیے تھا۔ یمن کے عوام ایسے عالم میں نہایت شدید اور سخت ایام گذار رہے ہیں کہ انسانی حقوق اور انسانی وقار و کرامت کا دفاع کرنے والی تنظیمیں خاموشی اختیار کرکے یمن کے مظلوم عوام کی کسمپرسی کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔ یمن کے حالات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان دوستانہ امداد جیسے امور پر بھی سیاست کا عفریت سایہ فگن ہے۔ یمن میں انسانی المیے پر انسانی حقوق کے دعویدار ممالک ایسے حالات میں سیاسی نظریات کا شکار ہیں کہ انہوں نے اپنے سارے وسائل و ذرایع سعودی عرب کی نئی اور وھم میں مبتلا حکومت کے اختیار میں دے رکھے ہیں۔ برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے مطابق یمن پر سعودی عرب کے ایک سو طیارے ہر روز حملے کررہے ہیں اور ان میں سے پچاس طیارے برطانوی ساخت کے ہوتے ہیں۔ یمن کے نہتے عوام کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت میں غیر ملکی پائلٹوں کی شرکت سے رائے عامہ کے سامنے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر کسی یورپی ملک پر جارحیت ہوتی تو کیا انسان دوستانہ مسائل بھی سیاسی فیصلوں پر منحصر ہوتے؟ اگر یورپ کے کسی ملک پر اسطرح کی بزدلانہ جارحیت ہوتی توکیاعالمی ریڈ کراس سیاسی مسائل کو نظر میں لائے بغیر اس ملک کے مدد نہ کرتی اور اس کے عوام کے لئے انسان دوستانہ امداد پہنچانے کے لئے فضائی کوریڈور نہ بناتی اور فوری طور پر غذائی اور طبی امداد روانہ نہ کرتی؟ لیکن یمن کے عوام پینتالیس دنوں سے سعودی عرب کے حملوں کے نتیجے میں جن میں غیر ملکی پائلٹ اور مغربی طیارے اور ہتھیار استعمال ہورہے ہیں شدید مسائل اور حالات کا شکار ہیں ۔آل سعود اور عالمی برادری بالخصوص مغربی ممالک کے حکام نے جو رویہ اختیار کررکھا ہے اس سے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی حکام نےانسانی حقوق کی تنظیموں اور مغربی ممالک کے دباؤ پر جنگ بندی کا فیصلہ نہیں کیاہے بلکہ اس کے پوشیدہ مقاصد کچھ اور ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پر مسلط موجودہ حکمرانوں کی ماہیت دیکھ کر یہ پیشنگوئی کی جاسکتی ہے کہ اس جنگ بندی کا مقصد یمن پرایک بھرپور زمینی حملہ کا شروع کرناہے جو ان مقاصد کےحصول کے لئے انجام دیا جائے گا جو فضائی حملوں سے حاصل نہیں ہوسکا۔