الوقت - قطر کی یہ پالیسی کچھ ہی عرصے بعد اچانک بدل گئی اور ہم نے دیکھا کہ قطر میں امریکہ کا فوجی اڈہ قائم ہوا اور طالبان نے قطر میں اپنا سیاسی دفتر قائم کیا ۔اس کے علاوہ حماس کی حمایت اور اسی طرح ایران کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قطر جیسے ایک چھوٹے سے ملک کی جانب سے اچانک علاقائی تبدیلیوں میں اس قسم کے کردار کی شاید مختلف وجوہات ہوں تاہم اس ملک کی اقتصادی وجہ اس سلسلے میں خاص اہمیت رکھتی ہے اس لئے کہ قطرگیس سے مالا مال تیسرا بڑا ملک ہے اور مایع گیس برآمد کرنے کے حوالے سے اپنی آمدنی کے لحاظ سے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ قطر نے گیس سے حاصلہ آمدنی سے الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل کی بنیاد رکھی اور عرب لیگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرب دنیا کے حالات اور تبدیلیوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تاکہ اس طرح وہ ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔لیکن علاقائی سطح پر رونما ہونے والے واقعات میں قطر نے غیر جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا اور قطر کی جانبدارانہ کردار کی وجہ سے عرب ممالک کے سیکولر حلقوں اور اسی طرح بحرین اور لبنان کے شیعہ مسلمانوں کی نکتہ چینی اور اعتراض و احتجاج کااسے سامنا کرنا پڑا۔ اسی کے ساتھ ساتھ شام کے صدر بشار اسد کے مخالفین کی حمایت کر کے قطر نے ایران کے ساتھ تعلقات کو نشیب و فراز سے دوچار کردیا۔یہ ایسے میں ہے کہ گذشتہ دو سال پہلے تک ایران، قطر کیلئے ایک ایسے مقام کی حیثیت رکھتا تھا کہ جو بعض مسائل کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ قطر کے تعلقات کوبیلنس رکھنے کا باعث بنتا تھا۔اس کے علاوہ تیونس، لیبیا، شام اورمصر میں مخالف تحریکوں کی حمایت کے باوجود ، بحرین کی عوامی تحریک کی حمایت نہیں کی اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس ملک کے مخالفین میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی تھی اس لئے احتیاط سے کام لیا۔ لیکن سعودی عرب نے خلیج فارس میں بحرین جیسے ملک کے گھٹن کے سیاسی ماحول اورنظام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ البتہ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین رقابت کے مسئلے کے پیش نظر علاقے میں ایران کے بڑھتے ہوئے کردار سے لاحق خوف اور اسی طرح قطر میں جمہوریت کے حامیوں کی جانب سے مطالبات جملہ وہ وجوہات اور دلائل ہیں جس کی بنا پر قطر نے لیبیا ،اور شام میں اپنے کردار کے بر خلاف بحرین کے غیر متوازن نظام کی حمایت کی اور اسی لئے وہاں کے شیعہ مسلمانوں کی جاری تحریک پر کوئی ردعمل نہیں دکھایا ہے۔اس درمیان قطر جو علاقائی سطح پر فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا تعلق عرب دنیا کے کمزورکردار سے ہے اس لئے کہ مصراندرونی بحران کا شکار ہے اور سعودی عرب بھی بعض عرب ملکوں کی نظر میں علاقائی تبدیلیوں میں فعال کردار ادا نہیں کر سکتا۔ البتہ اس قسم کی صورتحال اور تبدیلیوں میں سعودی عرب کا کردار بھی قطر کی طرح رہا ہے اور سعودی عرب کی سیاست، انتہا پسندوں کی حمایت اور انھیں طاقتور بنانے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں میں ریاض کی واضح مداخلت،ایران کے ساتھ رقابت اور یمن کے بحران میں سعودی عرب کی جارحیت سے اس ملک کی ساکھ عالمی سطح پر خراب ہوئی ہے ۔اس لئے اب سعودی عرب، قطر کے کم سیاسی اور فوجی اثرو رسوخ کے برخلاف اپنی سیاسی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے عرب لیگ کی مدد و حمایت سے شام کی حکومت کو گرانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے ۔
در حقیقت سعودی عرب اور قطر مصر کی غیر موجودگی اور کرنل قذافی کی حکومت کی سرنگونی کے بعد عرب لیگ میں نسبتا اہمیت حاصل کر گئے ہیں اوروہ اس کوشش میں ہیں کہ اپنی تشکیل کے وقت سے اب تکعرب لیگ، عرب ملکوں کے اندرونی مسائل پر کسی بھی طور کردار ادا نہ کرنے کے باوجود اس بار اپنے مفادات کیلئے عرب لیگ کو بین الاقوامی سطح پر عرب ملکوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر پیش کریں اور اس کے ذریعے اپنے مطالبوں کی تکمیل کریں۔تاہم جو باتیں کہی گئی ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ قطر کے حکام اپنے تئیں یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ شام کا بحران ختم ہونے والا نہیں ہے اس لئے اپنے اھداف کی تکمیل کیلئےہراقدام کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔ لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس قسم کی سیاست کو جاری رکھنے پر اصرار سے علاقے میں کشیدگی بڑھے گی جس کے نتیجے میں فعال کردار ادا کرنے سے متعلق اس ملک کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔