الوقت : روس کا دار الحکومت ماسکو، افغانستان کے بارے میں سیاسی سہ فریقی اجلاس کا میزبان ایسی حالت میں بنا کہ اس نشست میں کابل حکام کو دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اس نشست میں روسی، چینی اور پاکستانی حکام نے افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کے طریقہ کار پر گفتگو کی۔ اس نشست کا انعقاد، افغانستان کے مسائل میں سنجیدگی سے داخل ہونے کے لئے گزشتہ کچھ مہینوں کو دوران روس کی دوسری سنجیدہ کوشش تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کی برسی کے موقع پر کرملین کے حکام، مضبوط ارادے کے ساتھ افغانستان کے حالات پر گفتگو کرنے کو تیار ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھی ماسکو کے حکام نے طالبان باغی گروہوں کے ساتھ اپنے رابطے کی اطلاع دی تھی۔ روس کے اس بیان پر افغان حکام کا شدید رد عمل سامنے آیا تھا۔ اسی تناظر میں افغانستان کے امور میں روسی صدر ولادیمیر پوتین کے خصوصی ایلچی ضمیر کابلوف نے اعلان کیا کہ روس اور طالبان کے مشترکہ مفاد اور داعش جیسے مشترکہ دشمن ہیں اور اس بارے میں وہ اطلاعات کے شعبے میں تعاون کریں گے۔ ان حالات میں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماسکو میں افغان حکومت کے نمائندوں کے بغیر روس، چین اور پاکستان کی شمولیت سے منعقد ہونے والا سہ فریقی اجلاس، افغانستان میں عظیم مشرقی طاقتوں کی طاقت کے مظاہرے کی نمایش کا آغاز تو نہیں ہے؟ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو افغانستان میں مغربی بازیگروں کے مقابلے میں کھیلا جا رہا ہے۔
کابل کے بارے میں کرملین کو اقدامات انجام دے رہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روس افغانستان کی سرزمین پر ایک بار پھر اپنے اثرو رسوخ کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں روس کا نیا کھیل، ماسکو کے سہ فریقی اجلاس تک ہی محدود نہیں ہے۔ ماسکو نشست سے ٹھیک دو مہینہ پہلے ضمیر کابلوف نے اطلاع دی تھی کہ ماسکو، افغانستان کو ہیلی کاپٹر اور فوجی ساز و سامان دینے کے تیار ہے۔ اسی کے ساتھ روس کی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار نے ریانووستی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم فوجی ہلی کاپٹر اور دوسرے اسلحہ جات جیسے فوجی ساز و سامان افغانستان کو فروخت کرنے کو تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری نے برسلز اجلاس میں افغانستان کی 3.5 ارب ڈالر کی امداد پر تبادلہ خیال کیا اور یہ رقم افغانستان کے لئے کافی ہے۔ اس بنا پر اس ملک کی حکومت کو اس بات کی اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ اس امداد سے فائدہ اٹھائے اور فوجی ساز و سامان کو پورا کرنا اس ملک کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
افغانستان کے حالات پر نظر ڈالنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت نے چین کی حریف حکومت یعنی ہندوستان سے اپنے تعلقات مضبوط و مستحکم کئے جس کی وجہ سے چین کابل سے ناراض ہو گیا۔ اس کے علاوہ اشرف غنی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں بھی کشیدگی کا مشاہدہ کیا گیا اور یہی سبب ہے کہ چین اور پاکستان نے کابل کے بغیر افغانستان کے بارے میں سہ فریقی اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے ماسکو کی دعوت قبول کر لی۔
اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں نیٹو اور امریکا پر مبنی مغربی قطب کے مقابلے میں کرملین کی سربراہی میں ماسکو، بیجنگ اور اسلام آباد نئے مشرقی قطب کی تشکیل دینے کے درپے ہیں اور اس سے ممکن ہے کہ افغانستان بھی داخلی طور پر کئی گروہ میں تقسیم ہو جائے۔