الوقت - امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان کے بعد کہ اب روس کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہو سکتی اور اب شام میں دوسرے آپشن کا وقت آ گیا ہے، امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ صدر اوباما نے ملک کے تمام سیکورٹی اداروں سے کہا ہے کہ شام کے بارے میں تمام آپشن کا جائزہ لیں۔ اسی تناظر میں امریکا کے ایک عہدیدار نے کہا کہ شام کے مسئلے میں روس کے ساتھ مذاکرات کے نتیجہ خیز نہ ہونے کی صورت میں آسانی سے اٹھائے جانے والے اور شانے پر رکھ کر فائر کرنے والے اینٹی ائیر کرافٹ میزائل " مین پیڈس" علاقے کے اپنے عرب اور مغربی اتحادیوں کے حوالے کر دے گا تاکہ اس طرح وہ شام میں اعتدال پسند شامی حکومت کے مخالفین تک پہنچ جائے۔
شام میں تمام آپشن کے استعمال پر مبنی امریکا کی حالیہ دھمکی سے پتا چلتا ہے کہ شام کے بحران کے حوالے سے واشنگٹن کی تمام سابق اور موجودہ اسٹراٹیجی ناکام ہو گئی ہے لیکن بے شک اصل موضوع امریکا اور روس کے درمیان ہونے والےجنگ بندی کے معاہدے کی ناکامی ہے۔ شام میں جنگ بندی کا نفاذ 12 ستمبر سے شروع ہوا تھا لیکن یہ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے تک جاری نہیں رہ سکی۔ گر چہ جنگ بندی کے آغاز سے ہی شامی اور روسی جنگی طیاروں نے دہشت گردوں اور مخالفین کے ٹھکانوں پر ایک بھی حملے نہیں کئے اور شام کی فوج نے بھی جنگ بندی کی پوری طرح پابندی کی لیکن امریکا نے دہشت گردوں سے اعتدال پسند گروہوں کو الگ کرنے کے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا۔ طے یہ تھا کہ امریکا نصرہ فرنٹ کو اعتدال پسندوں کے گروہ سے جدا کرے گا لیکن ایسا ہوا نہیں۔
اس کے علاوہ امریکا کے جنگی طیاروں نے دیر الزور میں شامی فوج کے ٹھکانوں پر شدید بمباری کر دی جس میں شام کے 62 فوجی جاں بحق اور 100 سے زائد زخمی ہوگئے۔ اس کاروائی کےبعد شام اور روس سمیت دنیا کے متعدد ممالک نے امریکا کے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اس کے بعد شامی فوج نے باضابطہ جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ امریکا کی اسی خلاف ورزی کی وجہ سے وہ شام کے بارے میں دوسرا آپشن اختیار کرنے پر غور کرنے لگا۔ اسی تناظر میں امریکا نے علاقے کے اپنے اتحادیوں خاص طور پر سعودی عرب اور قطر کو حلب میں موجود دہشت گردوں کو پشرفتہ ہتھیاروں سے مسلح کرنے کا عندیہ دیا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ امریکا کے مد نظر کتنے آپشن ہیں :
(الف) فوجی آپشن پر پھر گفتگو:
یہ آپشن ان موضوع میں ہے جس کے استعمال کے بارے میں وائٹ ہاوس میں اب بھی گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح سے امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس نے مغرب کی شام مخالف پالیسی پر جان کیری کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بحران شام کے حل کے لئے فوجی آپشن کا فوجی، سیکورٹی اور خفیہ حلقے میں اس کا وسیع استقبال کیا گیا ہے۔
نو فلائی زون بنانے اور مخالفین کو ٹریننگ دینے کے لئے کے لئے طویل فاصلے کے میزائل کا استعمال، شام میں فوجی آپشن کے نفاذ میں قابل توجہ باتیں ہیں۔ اس منصوبے کے استعمال پر غور ایسی صورت میں ہو رہا کہ اوباما کی صدارت کی مدت ختم ہورہی ہے اور اب اس ملک میں ایک نیا فوجی محاذ کھولنے کی توانائی نہیں ہے اور آپشن بھی بعید نظر آتا ہے۔
(ب) مخالفین کی فوجی اور اسلحہ جاتی حمایت مضبوط کرنا:
اس آپشن کے استعمال کے بارے میں بھی امریکا اور مغرب کے کچھ میڈیا حلقوں نے امریکی سینٹر جان مکین اور لینڈسی گراہم کے قول کا حوالہ دیا۔ اس مسئلہ پر واشنگنٹن کے کچھ سیکورٹی اور خفیہ اہلکاروں سے ہوئی گفتگو میں بھی اس آپشن کو مسترد کر دیا گیا۔ جب شام میں ایک معین مدت میں کیمیائی ہتھیاروں کے ذخائر کو تباہ کرنے کا عمل مکمل ہو گیا تو شام میں کچھ مشہور اور مشخص گروہوں کو پشرفتہ ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی ضرورت پیش کی گئی۔ یہ ایسا آپشن ہے جس پر بحران شام کے آغاز سے امریکا اور کے عرب اور مغربی اتحادیوں نے خاص توجہ دی اور انہوں نے دہشت گردوں کو پشرفتہ ہتھیاروں سے مسلح بھی کیا اس لئے یہ آپشن کوئی نیا آپشن نہیں لگتا۔
(ج) پلان B کا آپشن :
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکا کا یہ ڈرامہ پہلے سے ہی سوچا سمجھا تھا۔ امریکا کی نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمن نے اس کو دو سفارتی اور فوجی آپشن کی ترکیب قرار دیا تھا۔ اس مرحلے کے نفاذ کے تحت سب سے پہلے نام نہاد فری سیرین آرمی کو پشرفتہ ہتھیارواں سے مسلح کرنا ہے کیونکہ امریکا کا دعوی ہے کہ یہ آپشن القاعدہ اور داعش کو کنٹرول کرنے کے لئے ہے، اس لئے کہ امریکا کی نظر میں شام کے خلاف اس کے منصوبوں کے آگے بڑھنے میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں لیکن آپشن کے نافذ ہونے سے روسی اور شامی فوج کے فضائی حملوں کو روکنے میں مدد نہیں مل سکے گی کیونکہ خود امریکا بھی یہ اعتراف کرتا ہے کہ حلب میں القاعدہ کے دہشت گرد بھی موجود ہیں اور طویل فاصلے کے میزائل سمیت پشرفتہ ہتھیار سے صرف شامی اور روسی طیاروں کو ہی نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ امریکا اور یورپ کی پروازوں کے لئے بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔