الوقت - ایک طرف حکومت پاکستان شدت پسند گروہوں اور ان کے مدرسوں سے ہر قسم کے تعلقات اور تعاون کی تردید کرتی ہے، تو دوسری طرف خیبر پختونخوا صوبے کی حکومت کے ایک وزیر نے کہا ہے کہ عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کہ جس کی اس صوبے میں حکومت ہے، حقانی نیٹ ورک سے وابستہ مدارس کی ہر سال کروڑوں روپے کی مدد کرتی ہے۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق، خیبر پختونخوا کے وزیر شاہ فرمان نے کہا ہے کہ دارالعلوم حقانیہ نوشیرہ کو سالانہ 30 کروڑ روپے کی مدد کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت مذہبی اداروں کو نشانہ نہیں بناتی ہے بلکہ ان کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور ان کی مالی مدد کرتی ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے بانی جلال الدین حقانی، القاعدہ کے سرغنہ عاصم عمر، سابق طالبان سربراہ ملا عمر اور ملا محمد اختر منصور سمیت کئی اعلی طالبان لیڈر نوشیرہ ضلع کے اكورا میں واقع حقانیہ مدرسے کے طلباء رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے مذہبی امور کے وزیر حبیب الرحمن کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کے وزیر پرویز خٹک نے سالانہ اس مدرسے کی مالی مدد کا وعدہ کیا ہے۔
اس مدرسے کا قیام 1947 میں ہوا تھا اور موجودہ وقت میں جمعیت علماء اسلام کے لیڈر مولانا سمیع الحق اس کے سربراہ ہیں۔
حقانی نیٹ ورک کے مدرسوں کی مدد کی بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب امریکہ اور افغانستان اس گروہ کو دہشت گرد گروپ قرار دیتے ہیں۔ واشنگٹن اور کابل، اسلام آباد سے کئی بار اس گروپ سے سنجیدہ مقابلے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ پاکستان میں بیس ہزار سے زیادہ ایسے دینی مدارس ہیں جو وہابی افکار و نظریات سے متاثر ہونے کی وجہ سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کی تربیت دینے کے علاوہ دہشت گرد گروہوں کو افرادی قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان او افغانستان کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس ملک کے مذہبی مدارس میں وہابی افکارونظریات کی تعلیم اور تشدد و انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے اور یہ مدارس خطے میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی ترویج کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ابھی حال ہی میں افغان عوام نے دار الحکومت کابل میں وسیع مظاہرے کرکے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئي کو بلیک لسٹ کرے اور افغانستان کے داخلی امور میں پاکستان کی مداخلت کا سد باب کرے۔
بہرحال خیبر پختونخوا کے ایک وزیر کی حقانیہ مدرسے کی مالی مدد کے اعتراف سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان پر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود، اس ملک میں مدارس کی جانب سے انتہا پسندی کی توسیع کی پالیسی جاری ہے۔ ان مدارس کا بڑا بجٹ سعودی عرب کی طرف سے دستیاب کروایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اسلام آباد حکومت کو ماضی سے زیادہ علاقائی اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔