سوال : بحران شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟
جواب : شام کی صورتحال بہت عجیب و غریب بن گئی ہے، 27 فروری کو جو جنگ بندی ہوئی تھی، اس کے بعد پوری دنیا میں ایک امید کی لہر دوڑ گئی کہ اب شام میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور یقینا حالات بہتر بھی ہوئے، مشرقی اور مغربی دونوں طرف بہت اچھے حالات پیدا ہوئے، اس کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ پانچ برسوں میں دہشت گرد گروہ نے انتہائی وحشناک کاروائی کی لیکن شامی عوام نے جو بے نظیر مزاحمت کی اور دہشت گرد گروہوں کا ڈٹ کر جو مقابلہ کیا اس سے مغربی اور مشرقی دونوں بلاکوں میں دہشت گردوں کوشدید شکست ہوئی۔ آپ دیکھیں کے غیر ملکی حمایت یافتہ دہشتگردوں کی شکست سے یہ ثابت ہو گیا کہ شام میں مغرب اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوئی ہے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ شامی حکومت نے جنگ بندی کے دوران عوام کی فلاح و بہبودی کے لئے جو اقدامات انجام ديئے تو دہشت گرد گروہ اور ان کے حامیوں کو یہ سمجھ میں آنے لگا کہ اگر دوبارہ بشار اسد عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو جو سیاسی مسئلہ تھا جس سے وہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے، وہ امید ان کی ٹوٹ جائے گی۔ اسی لئے ہم نے سب سے پہلےحلب میں جنگ بندی کی خلاف ورزی دیکھی۔ شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کی اہم وجہ شامی فوج کی پیشرفت کو روکنا ہے۔
سوال : شام میں مغربی حمایت یافتہ دہشت گردوں نے رہائیشی علاقوں پر اندھا دھند گولہ باری اور میزائل فائر کئے۔ رپورٹ میں ہے کہ دہشت گردوں نے کیمیائی ہتھیار بھی استعمال کئے۔ یہ پیشرفتہ ہتھیار دہشت گردوں کو کون سپلائی کرتا ہے۔
جواب : میرا خیال ہے کہ یہ اتنے سادہ ہتھیار نہیں ہیں کہ ہم کہیں کہ یہ خود انتہا پسند گروہوں نے بنا لئے ہیں، یقینا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہیں انھوں نے ہی یہ اسلحے بنائیں اور انھوں نے ہی یہ ہتھیار دہشت گردوں کو دیئے ہیں۔ انھوں نے اس کو راز رکھنے کی بھی کبھی کوشش نہیں کی کیونکہ انھوں نے علی الاعلان یہ کہا تھا کہ وہ بشار اسد کی حکوت کے خلاف جو گروہ ہیں ان کی وہ مالی امداد بھی کرتے ہیں اور اسلحہ جاتی مدد بھی کرتے ہیں۔ اور ترکی کے اندر انھوں نے ٹریننگ کیمپ بھی بنائیں ہیں اور اس وقت بھی جو گروہ بر سر پیکار ہیں وہ خود بھی کہتے ہیں کہ ہم کو غیر ملکی مدد مل رہی ہے۔ یہ جو جنگ بندی ہوئی تھی اور امریکا اور روس کے درمیان ہونے والے اتفاق میں یہ جنگ بندی ہوئی اور اس کے باوجود اگر اتنے بڑے ہتھیار استعمال ہوئے تو یہ تشویش کی بات ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق صرف تین ہفتوں کے دوران تین سو سے زائد بے گناہ افراد مار گئے ہیں لیکن اگر ہم گزشتہ پانچ سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ چار لاکھ سے بھی زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور بیس لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ حلب میں یہ جو جنگ بندی نافذ ہوئی ہے اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ دہشت گردوں کا ارادہ تھا کہ ایک بڑا حملہ کرکے حلب پر قبضہ کر لیں گے لیکن جب فوج نے ان کے حملے کو ناکام بنا دیا تو ان کے آقاؤں نے جنگ بندی کے لئے وا ویلا مچا دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جنگ بندی کتنی پائدار رہتی ہے۔
سوال : بحران شام پانچ برسوں سے جاری ہے اور ان پانچ برسوں میں امریکا اور اس کے اتحادی اپنا ہدف تو حاصل نہیں کر سکے،اب شام کے جو حالات بن رہے ہیں اس میں کیا امریکا اور اس کے اتحادی اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے۔
جواب : یہاں پر یہ بات واضح کر دینا چاہئے کہ یہ بحران صرف پانچ سال سے جاری رہیں پہلے یہ بحران 2004 سے جاری ہے۔ 2004 میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا تھا اور اس کے تحت امریکا اور مغربی ممالک نے شام پر بہت ہی پابندیاں عائد کی تھیں۔ ہر سال ان پابندیوں کی مدت بڑھائی جاتی رہی اور اس سال بھی امریکا نے یہ ایمرجنسی جاری رکھی، یعنی شام کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جو جنگ طلب طاقتیں تھیں اور جو جنگ کی حامی طاقتیں تھیں ان کو پوری دنیا میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور عوامی رای عامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں تعاون اور انسانیت کی بنیاد پر تعاون کرنے کی مطالبہ بڑھ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں انھیں ایران کے جائز مطالبے قبول کرنے پڑے، افغانستان سے انھیں نکلنا پڑا، عراق سے انھیں باہر جانا پڑا، یمن میں انھیں شکست کھانی پڑی اور شام میں وہ شکست کھا چکے ہیں۔ مستقبل میں ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ جو نئی لیڈر شپ آ ئے گی اور جو نئی نسل آئے گی اس سے مثبت تبدیلی کا رجحان ظاہر ہو رہا ہے۔